|
.
(۴) ڈوبتے کوتنکے کاسہارا (بہت ہوتا ہے) ڈوب مرنا۔
ڈوبناہمارے ایسے الفاظ میںسے ہے جوسماجی حقائق میں سے روشنی ڈالتے ہیں دیہات قصبات کے لوگ ’’ڈوبے ڈھیری‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں اُس کا قصّہ ختم ہوگیا۔ جب ہاتھ اُدھارکی رقم واپس نہیں آتی تواُسے رقم ڈوب جانا کہتے ہیں نقصان کی صُورت میں بھی رقم ڈوبنے کاذکرآتاہے۔اسی طرح گھرڈوب گیا تباہی کے معنی میں آتاہے یاپھربہہ جانے کے معنی میں آتاہے۔ اُردوکا ایک مصرعہ ہے۔ ایسا برساٹوٹ کے بادل‘ ڈوب چلا میخانہ بھی ڈوبتے کوتنکے کا سہارا ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے جب شخصی وجود خطرہ میں پڑگیا ہو اورسہارا ملنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ دوسروں کے غیرمخلصانہ رویوں کی وجہ سے آدمی کسی پراعتماد بھی نہ کرسکتا ہوایسے بُرے وقت میں کوئی کمزور سے کمزورسہارا بھی آدمی کو بڑی بات نظر آتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے بلکہ واقعتاً وہ سہارا کچھ نہیں ہوتا ایک نفسیاتی عمل ہوتا ہے اوربس۔
(۵)ڈھاک کے تین پات ، ڈھائی دن کی بادشاہت ، ڈھائی گھڑی کی آنا۔
ڈھاک ہمارے اپنے علاقہ کے معروف درختوں میں ہے جس کے جنگل کے جنگل کھڑے رہتے تھے اور’’سٹیوکے پھول‘‘ ڈھاک ہی کے پھول ہوتے ہیں۔ اِس کا اپنا خاص رنگ ہوتا ہے یہ داؤں میں کام آتے ہیں ڈھاک کے پتے سودا سلف کے کام آتے تھے گوشت اسی میں رکھ کردیتے تھے اور’’پھول‘‘ اور’’ہا ر‘‘وغیرہ انہی پتوں میں رکھ کردےئے جاتے تھے لیکن ڈھاک نے ہمیں ایک عجیب محاورہ دیا اوروہ ڈھاک کے تین پات رہ گئے اس لئے کہ ڈھاک کے تین ہی پات ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرہ میں کچھ ایسا ہے کہ اکثرکوششیں نکام ہوتی ہیں اورکوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا ایسے ہی موقع پرڈھاک کے تین پات کہتے ہیں ۔
(۶)ڈھائی چلّو لہو پینا یا پلانا ،ڈیڑھ اینٹ کی مسجد چُننا۔
چُلّو ہاتھ کے پیمانے کوکہتے ہیں اب اس کا ذکر بھی اوردوربھی ختم ہوا ورنہ دیہات وقصبات میں بعض محاورات میںچُلّو کا لفظ بہت آتا تھا۔ اورکہتے تھے کہ ڈیڑھ چُلّو پانی میں ڈوب مرو۔ ڈیڑھ اورڈھائی بھی محاوراتی ، کلمات میں آتے ہیں۔ جیسے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا یا ڈھائی گھڑی کی، بننا، تجھے بن جائے ڈھائی ڈھائی گھڑی کی۔ یہ عورتیں کو سننے کے طورپر محاورہ استعمال کرتی تھیں۔ ’’ڈھائی دن کو جھونپڑا‘‘ دہلی کے خاص محاوروں میں ہے اس اعتبار سے ڈھائی چلو لہوپینا یا پلانا اس طرح کا محاورہ ہے جس میں ایک خاص انداز سے معاشرتی فکر اورپیمانہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مطلب ڈھائی گھڑی یا ڈھائی دن نہیں ہوتا ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کی ناپ کا پیمانہ ڈھائی کومقررکیا جاتا ہے ۔ڈھائی دن کی بادشاہت اسی ذیل میں آتا ہے۔
(۷)ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے۔
’’چھاؤں‘‘ ہمارے یہاں سایہ کوکہتے ہیں اورسایہ سرپرستی محبت اور عارضی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے باپ کا سایہ سرسے اُٹھ گیا یا سایہ دیوار بھی میسر نہ آیا ۔سایہ میں پڑا رہنا نکمے پن کو کہتے ہیں اپنا مارتا ہے توچھاؤں میں بٹھا تاہے ہاتھوں چھاؤں کرتا ہے۔ اسی چھاؤںکو ہم اپنے دن رات کے تجربہ کی روشنی میں چلتی پھرتی چھاؤں بھی کہتے ہیں کہ ابھی چھاؤں ہے توابھی دھوپ ہے اورجہاں جہاں دُھوپ آتی ہے وہاں وہاں چھاؤں توہوتی ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ ُان کے’’ پینترے ‘‘بدلتے رہتے ہیں اچھے وہ بھی ہمیشہ نہیں رہتے اوربُرے دن بھی گزرجاتے ہیں ظاہر کرنے کے لئے چلتی پھرتی دُھوپ چھاؤں کہا جاتا ہے۔
|