|
.
محاورہ کی ایک جہت ادبی ہے اورایک معاشرتی یعنی زبان کے استعمال کی صحیح صورت جب دہلی والے اپنے محاورہ کی بات کرتے ہیں تواُن کی مراد صرف Proverb سے نہیں ہوتی بلکہ اُس روز مرّہ سے ہوتی ہے جس میں بولی ٹھولی کا اپنا جینس (Genius)چُھپارہتا ہے اسی لئے دہلی والے ایک وقت اپنے محاورہ پر بہت زور دیتے تھے۔ اب وہ صُورت تونہیں رہی مگر محاورے کی ادبی اورتہذیبی اہمیت کوپیشِ نظر رکھا جائے یہ مسئلہ اب بھی اہم بلکہ یہ کہئے کہ غیرمعمولی طورپر اہم ہے اس لئے کہ محاورہ زبان کی ساخت اورپر داخت پر بھی روشنی ڈالتا ہے اورزبان کے استعمال کی پہلو داریوں کو بھی سامنے لاتا ہے دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں کو اپنے محاورہ کی کسوٹی قرار دیتے تھے اُس کی اپنی لِسانی ادبی تاریخی اورمعاشرتی پہلوداریاں ہیں جن کو اِن خاص علاقوں میں بولے جانیوالی زبان اوراندازِ بیان نے اپنے ساتھ خصوصی طورپر رکھا ہے اوراس طرح کئی صدیوں کے چلن نے اسے سندِ اعتبار عطا کی ہے زبان اور بیان کی روایتی صورتوں کو الفاظ کلمات اورجملوں کو ایک خاص شکل دیتا ہے اس میں روایت بھی شامل ہوتی ہے اوربولنے والوں کا اپنا ترجیح رویہ بھی کہ وہ کس بات کو کس طرح کہتے اور سمجھتے ہیں محاورہ میں آنیوالے الفاظ تین پانچ کرنا یا نودوگیارہ ہونا تین تیرہ بارہ باٹ یہ ایک طرح سے محاورے بھی ہیں اورجملے کی وہ لفظی اورترکیبی ساخت بھی جو اپنا ایک خاص Settingکا اندازہ رکھتی ہے۔ اِن دوجہتوں کے ماسوا محاورہ کے مطالعہ کی ایک اوربڑی جہت ہے جس پر ہنوز کوئی توجہ نہیں دی گئی یہ جہت محاورہ کے تہذیبی مطالعہ کی ہے اوراُس کے ذہنی زمانی انفرادی اوراجتماعی رشتوں کوسمجھنے سے تعلق رکھتی ہے اس تعلق کو اُس وقت تک پورے طورپر نہیں سمجھا جاسکتا جب تک اُن تمام نفسیاتی سماجیاتی اورشخصی رشتوں کو ذہن میں نہ رکھا جائے جومحاورہ کو جنم دیتے ہیں۔ اورلفظوں کا رشتہ معنی اور معنی کا رشتہ معنویت یعنی ہمارے سماجیاتی پس منظر اورتاریخی ونیز تہذیبی ماحول سے جوڑتے ہیں یہ مطالعہ بے حد اہمیت رکھتا ہے اوراُس کے ذریعہ ہم زبان اُس کی تہذیبی ساخت اورسماجیاتی پرداخت کا صحیح اندازہ کرسکتے ہیں۔ عام طورپر ہمارے ادیبوں، نقادوں اورلِسانیاتی ماہروں نے اِس پہلو کو نظرانداز کیا اوراِس کی معنویت پرنظر نہیں گئی ۔ اِس کے لئے ہم ایک سے زیادہ محاوراتی صورتوں کوپیشِ نظررکھ سکتے ہیں۔ راقمہ الحروف نے اسی نسبت سے محاورے کے مطالعہ کو اپنا موضوع بنایا اورمختلف محاورے کے سلسلہ میں جوباتیں ذہن کی سطح پر تہذیب ومعاشرت کے لحاظ سے اُبھر کر سامنے آئیں۔ اُن کو اپنے معروضات میںپیش کردیا ۔ اسی کے ذیل میں مختلف محاورات اوراُن کے فِکر وفہم سے جواُمور وابستہ ہیںاُن کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جس سے متعلق کچھ باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً پانی آب ہی کوکہتے ہیں روشنی شفافیت اورکِشش کے طورپر پانی کالفظ استعمال ہوتا ہے پانی تلوار اورآئینہ کے ساتھ یہی معنی دیتا ہے اورآنکھو ںکے ساتھ بھی ہم کچھ اپنی مثالوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں جن سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ محاورے کی سادہ سی صورت کے پسِ منظر میں تہذیبی معنی اورمعنویت کے کیا کیا سلسلے ملتے ہیں مثلاًجب ہم یہ کہتے ہیں کہ اُس کی آنکھوں کاپانی ڈھل گیا تواِس سے مراد آنکھوں کی کشش بھی ہوتی ہے حیاء وشرم اورغیرت کی وہ خوبی وخوبصورتی بھی جو آنکھوں سے وابستہ ہوتی ہے ۔ اورجب وہ نہیں رہتی تبھی تویہ کہتے ہیں کہ آنکھوں کا پانی ڈھل گیا۔ ہم استعارہ کی طرح محاورہ میںبھی لفظ سے معنی اورمعنی سے درمعنی کی طرف آتے ہیں۔ ’’رنگ ‘‘کالفظ خوبصورتی کشش انداز وادا سب کو دھنک کی طرح اپنے حلقو ںمیں لے لیتا ہے اس سے رنگینی بھی مُراد ہوتی ہے۔ اورخوبصورتی بھی اور اہلِ زبان خاص انداز بھی شاعری میں طرزِ فکر اوراندازِ ادا کو ’’رنگ‘‘ سے تعبیرکیا جاتا ہے اوربے رنگ ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اُس میں کوئی خاص خوبصورتی وکشش نہ ہو۔ اسی لئے بے رنگی اشعار کی اس سادگی کو کہا جاتا ہے۔ جن میں سپاٹ پن ہوتا ہے اوریہ کبھی کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے اشعار توبالکل بے آب ورنگ ہیں۔ یعنی اُن میں فکر وخیال کے اعتبار سے کوئی حُسن کوئی جاذبیت اورکشش تھی ہی نہیں اِس اعتبار سے اس محاورہ کوہم اپنی ذہنی زندگی اپنے احساسِ جمال اورسماجی رویہ کانمائندہ کہہ سکتے ہیں۔
زباندانی کا جومعیار اہلِ شہر اپنی شہریت ،اپنی گفتگو اوراپنے لب ولہجہ سے وابستہ
کرتے ہیں اُس کا ایک گہرا تعلق محاورہ سے بھی ہے کہ بغیر شہر
|