|
.
کہ ہمارے محاوروں کا ہماری سماجی صورتِ حال سے کیا رشتہ ہے اوروقت وحالات اورماحول کا ہماری سماجی صورت حال سے اورماحول کیا رشتہ ہے اوروقت وحالات اورماحول کے ساتھ ا س میں کیا تبدیلیا ںہوتی رہتی ہیں راستہ کو راہ بھی کہتے ہیں اوریہ محاورے ’’راہ‘‘ سے بھی وابستہ ہیں۔
(۴)رام رام کرنا (رام رام جینا) رام نام کی لُوٹ،رام دُہائی ، رام کی کہانی، رام کی مایا ، رام لیلا، رام کی بچھیا وغیرہ۔
رام کی مذہبی اورتہذیبی شخصیت ہمارے معاشرے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ اورہندومعاشرے کی ایک سائیکی میں داخل ہے۔ گاؤں کے اورآدمیوں کے نام’’ رام‘‘ کے نام پر رکھے جاتے ہیں ’’راون‘‘ رام کے مقابلہ میں ایک دوسرا کردار ہے جس کوبُرائیوں کا ایک علامتی کردار خیال کیا جاتا ہے’’ راون کی سیتا ‘‘’’راون کی نگری‘‘ یا راون کی لنکا اسی نسبت سے محاوروں میں داخل ہوتی ہے۔ ’’رام ‘‘کویادکرنا نیکیوں کے سرچشمے کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جیسے ’’رام رام کرو‘‘ رام بھلی کرے گا رام نام کی لوٹ مُفت کامال ہے بڑی چیز ہے تم جتنی بھی چاہویہ دولت تمہاری بن سکتی ہے ۔ مصیبت کے وقت میں رام کی دہائی بھی دی جاتی ہے اورمصیبتوں بھری کہانی کو’’رام کہانی‘‘ کہا جاتا ہے ’’رام کتھا‘‘ بھی رام کہانی ہی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ دوسرا ہے رام کے نام پر آنیوالے محاورے اس طرح اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری زبان اورمحاوروں کے سرچشمہ میں کہاں کہاں میں کہاں کہاں ہیں اورکن سماجی مُحرکات کے ذریعہ محاوروں سے متعلق مفہوم ومعنی کے سلسلہ پیدا ہوتے ہیں۔یہ سب ’’رام کی مایا ‘‘ہے اسی معنیاتی سلسلہ کی طرف اشارہ کرنیوالے محاورہ ہے۔
(۵)رُستم یا افلاطون کا سالا
بعض کردار عوام کے دلوں میں اُترجاتے ہیں ذہنوں پر چھاجاتے ہیں۔ اُن میں ایک افلاطون کا کردار بھی ہے جویونان کا تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے ایک فلسفی گزرا ہے جو’’ارسطو‘‘کا استاد تھا۔ اس کا فلسفہ ہمارے یہاں علمِ حکمت اوردینی مسائل میں بھی رہنمائی کرتا رہا ہے ہمارے عوام کے دلوں میں یہ فلسفیانہ مسائل توکیا اترتے وہ افلاطون کو ایک بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں اوردوسروں کے لئے اُسے بطورِبرائی استعمال کرتے ہیں وہ افلاطون ہورہا ہے خود کو افلاطون کا سالاسمجھتا ہے یا افلاطون بناکر پھرتا ہے افلاطون کواُن نفسیاتی رویوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہماری زبان ہمارے ذہن اورہمارے زمانے کے عام لوگوں کے پاس یہی تصورہے۔ ورنہ عام لوگ افلاطون کوکیا جانیں۔ رُستم قدیم ایران کا ایک پہلوان تھا بہت بڑا بہادر جس کی حیثیت اب ایک اساطیری کردار کی سی ہوگئی ہے اوربہادری میں اس کانام بطورِ مثال آتا ہے ویسے ہمارے یہاں بڑا پہلو ان اورطاقتور سمجھتے ہیں اس کو’’ رستم زمان‘‘ خیال کرتے ہیں ’’گاماں ‘‘پہلوان کا خطاب ’’رستم‘‘ ہند تھا اب یہ ایک الگ بات ہے کہ افلاطون کی طرح رستم کا حوالہ بھی عوام کی زبان پر طنزکے طورپر آتا ہے کہ وہ بڑے رستم زماں بنے پھرتے ہیںیا پھراپنے آپ کو’’ رستم کا سالا‘‘ سمجھتے ہیں افواہِ عوام میں پڑی ہوئی بات کو آسانی سے ردّ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ توہمارے محاورہ کا حصّہ بن جاتی ہے اورجیسا کہ روزاشارہ کیا گیا ہے جومحاورہ میں آئی ہوئی بات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ ہماری سائکی میں اترگئی ہے نفسیات کا جُزبن گئی وہ تاریخ نہیں ہے افسانہ ہے لیکن سماجی سچائی کا حصّہ ہے۔
(۶)رس مارے رسائن ہو۔
’’رس‘‘ کا لفظ ہندی میں بہت بامعنی لفظ ہے اس کے معنی ’’لطف ولذت‘‘ کے بھی ہیں جذبہ واحساس کے بھی ،مشروبات (پینے) کی چیز میں اور مسموعات میں بھی یعنی جوہم سنتے ہیں جیسے کانوں میں ’’رس گھولنا‘‘ رسیل آواز’’ رس بھرا لہجہ‘‘ ایساپھل جس کا عرق میٹھا اورخوش ذائقہ ہوتا ہے وہ بھی رسال رسیلا اوررس بھرا کہلاتا ہے’’ رس بھری‘‘ ہمارے یہاں ایک پھل بھی ہے۔ ہندی میں مختلف جذبوں کو’’رس‘‘ کہتے ہیں جیسے ہانس سے ’’رس‘‘ وی رس نشر نگار رس یہاں اس محاورے میں ’’رس‘‘ کورساس کہا گیا ہے رسائن کے معنی
ہیں۔
|