|
.
دوا علاج کی غرض سے کِھلائی پلائی جانیوالی اشیاء اِس محاورے کے معنی ہوئے کہ اگروہ رس کا چھینٹا ماردے اچھی بات کہہ دے توجی خوش ہوجائے اورایسا محسوس ہوجیسے کسی دُکھ درد کی دوامل گئی یہ خالص ہندوی محاورہ ہے اُردو میںمستعمل نہیں مگربہت اچھا ہے۔
(۷)رسّی جل گئی پربل نہیں جلا، یا رسّی جل گئی پربل نہیں نکلا(گیا)۔
ایک اہم سماجی محاورہ ے ’’رسی‘‘ ایسے میٹریل سے بنائی جاتی ہے جوگل بھی جاتا ہے اورجل بھی جاتا ہے لوہے کی رسےّوں کا تصورپہلے زمانہ میں نہیں تھا وہ اب کی بات ہے ایسی صورت میں اگررسّی جل بھی جاتی تھی تواس کے بل راکھ میں بھی نظر آتے تھے۔ اس مشاہدہ سے یہ محاورہ اخذکیا گیا کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے۔ اوراس کا اطلاق ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب آدمی دولت مندنہیں رہتا یا بااقتدار نہیں رہتا مگراس کے ناز نخرے یا ادب وآداب کو پسند کرنے کا طریقہ وہی رہتا ہے تویہ کہا جاتا ہے کہ رسی جل گئی مگربل نہیں گئے طورطریقے وہی رہے جونوابی کے زمانہ کے تھے یا افسری کے زمانہ کے تھے۔
(۸)رفوچکر ہونا۔
لفظی اعتبار سے غیرمعمولی محاورہ ہے کہ رفو اورشئے ہے چکر کچھ اور رفو کا چکر سے کوئی تعلق نہیں جب کہ اُن دونوں سے جومحاورہ بناہے اس کے معنی غائب ہوجانے کے ہیں اورعام طورسے استعمال ہوتا ہے جہاں کسی آدمی سے متعلق کوئی کام کیا جا تاہے اوروہ اس سے پہلوتہی کرتا ہے۔ اوروہاں سے غائب ہوجاتا ہے تواُسے رفو چکر ہونا کہتے ہیں یعنی کسی ذمہ داری سے بچنا اورغیرذمہ داری کے ساتھ نکل جانا۔
(۹)رکابی مذہب ہونا۔
رکابی کھانے کی پلیٹ کو کہتے ہیں اورپلیٹ میں کھانا کھانا بڑی بات سمجھا جاتا تھا عام طورپر غریب آدمیوں میں یہ دستور تھا کہ ایک ہی برتن میں سب کھاتے تھے یا پھرروٹی پر رکھ کرکھاتے تھے اب جن لوگوں کے یہاں رکابی میں رکھ کر کھانے کا رواج ہوتا تھا اوراچھے لوگ سمجھے جاتے تھے ان سے لوگ قریب آتے تھے اوراُن کی خوشامدیں طرح طرح سے کرتے تھے ایسے ہی لوگ خوشامد ی نہ کہلاکر رکابیہ مذہب کہلاتے تھے یعنی ان کا مقصد خوشامد ہے اوراس خوشامد کے طورپر یہ ان کے مذہب کی بھی تعریف کرنے لگیںگے۔ اس صورتِ حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سماج میں لوگ مذہب کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا موقع ہوتا تھا اس کے مطابق مذہب اختیارکرلیتے تھے ۔ اُردو میں ایک دوسری کہاوت ہے جواِسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ’’جہاں دیکھا توا برات وہیں گزاری ساری رات‘‘ یعنی جہاں اپنا کام بنتا دیکھا وہیں کے ہورہے اورانہی کی سی بات کرنی شروع کردی۔
(۱۰)رگ پٹھے سے واقف ہونا،رگ وریشہ میں پڑنا۔
یہ محاورہ حکیموں یاپہلوانوں کاہونا چاہیے ۔ اس لئے کہ رگ پٹھوںسے واقف ہونا انہی کا پیشے کا تقاضہ ہے۔ لیکن ہماری سماجی زندگی میں بھی یہ محاورہ داخل ہے اوراس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتاہے کہ میں ان سے اچھی طرح واقف ہوں۔ خوب جانتا ہوں۔ آدمی اپنے آپ کو طرح طرح کے نقابوں میں چُھپانا چاہتا ہے اسی کا جواب سماج کے دوسرے افراد کی طرف سے یہ آتاہے کہ وہ ہم سے نہیں چُھپ سکتے ۔ داغ کا مصرعہ ہے۔ وہ ہم سے بھی چھپیں گے وہ کہاںکے ایسے ہیں اوراسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم توان کے رگ وریشے سے یارگ پٹھوں سے واقف ہیں یعنی ایک ایک بھیدجانتے ہیں۔ اگردیکھا جائے توشخصی ، جماعتی یا خاندانی راز چُھپائے جاتے ہیں۔ مصلحتیں اسی میں ہوتی ہیں مگرعزیز وں رشتے داروں ملنے جلنے والوں یہاں تک۔
|