|
.
کہ پاس پڑوس والوں کی یہ خوشی اورخواہش رہتی ہے کہ وہ ایک ایک بات کو جانیں یہ ہمارا معاشرتی انداز نظر ہے ایک حدتک اورخاص خاص موقعوں پر یہ ضروری بھی ہوسکتا ہے لیکن معاشرہ میں اس رویہ کی عمومیت اچھی بات نہیں ہوتی۔
(۱۱)رنگ چڑھنا، رنگ جمنا یا جمانا ، رنگ دیکھنا رنگ پھیکا پڑنا، وغیرہ
رنگ ہمارا ایک تہذیبی لفظ ہے مختلف تہذیبی رویوں کے ساتھ رنگ وابستہ بھی ہوتے ہیں۔ رنگوں کا احساس اوراُس کا الگ الگ ہونا فطرت کی دین ہے جنگلوں کارنگ پھولوں پھلوں کا رنگ پتھروں اورپانیوںکا رنگ ہمیں قدرت کی رنگا رنگی کا احساس دلاتا ہے رنگ بکھرنا رنگ پھیلنا رنگ اڑنا رنگ پھیکاپڑنا جیسے محاورے رنگ ہی سے وابستہ ہیں بعض محاورے ہماری معاشرتی زندگی اوراُس کے ذہنی رویوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ رنگ جمانا ایسا ہی ایک محاورہ ہے کہ دوسروں میں اپنی کوشش خواہش اورعمل سے اپنے بارے میں ایک احساس پیدا کرنا۔ رنگ جمنا بھی اسی صورت کی طرف اشارہ کرتاہے اور’’رنگ پھیکا پڑنا‘‘ بھی اوریہ بھی کہ ہم نے یہ رنگ بھی دیکھے ہیں یعنی ان کے یاکسی کے بارے میں ہماری نظرمیںیہ سب باتیں بھی ہیں اُردو کا مشہور مصرعہ ہے ’’رنگ کے بدل‘‘ جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے اس کا پہلا مصرعہ ہے۔ زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا یعنی زمانہ میں کیا کیا انقلاب ہوتے ہیں اورزندگی میں کیا کیا رنگ دیکھنے پڑتے ہیں۔ کن کن حالات سے گزرنا ہوتا ہے۔
(۱۲)رنگ رلیاں منانا ، رنگیں مزاج ہونا۔
ہم رنگیں طبیعت بھی کہتے ہیں مزاج بھی کہتے ہیںرنگین مزاج بھی اوراُس سے مراد شوقین مزاج لیتے ہیں زندگی گزارنے کے کچھ مختلف طریقہ ہیں۔ سنجیدہ مزاج لوگوں کے کچھ اورطریقہ ہوتے ہیں شوقین مزاج لوگوں کے کچھ اور وسائل کا فرق اس میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے۔ مال دار لوگ یا جاگیردار اورزمین دار خاندانوں کے افراد اکثرعیش اورمزے اڑاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اسی کو ’’رنگ رلیاں منانا‘‘کہتے ہیں اب اس میں جاگیریں جائدادیں تباہ ہوجاتی ہیں خاندان مفلس ہوجاتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے اور اس پر غیرسنجیدہ افراد اورامیرزادے کوئی توجہ نہیں دیتے کہ کل کوکیا ہوگا۔ اِس سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کا پتہ چلاسکتے ہیں کہ زندگیاں کیسے گزاری جاتی ہیں اوران سے اچھے بُرے نتیجے کیا نکلتے ہیں۔
(۱۳)رُوح بھٹکنا، رُوح تھرانا یا کانپنا، رُوح نکالنا ، رُوح نکلناوغیرہ۔
’’رُوح‘‘ ہمارے جسم میں وہ جوہر یاقوّت ہے جوبھیدوبھری ہے وہ کیا ہے اورکیانہیں ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگراسی کے سہارے ہم زندہ رہتے ہیں اوراسی کے تقاضہ ہمیںاپنی مادّی ضرورتوں سے اوپراٹھاتے ہیں ہماری ایک انسانی اوررُوحانی اخلاقی اورمذہبی سوچ بنتی ہے جس سے نسبت کے ساتھ ہم اُسے روحانی طریقہ فکرکہتے ہیں۔ ہمارا خوف دہشت تکلیف اورراحت سب رُوح کے ساتھ ہے رُوح بدن سے نکل گئی تونہ کچھ تکلیف ہے نہ راحت ہے نہ زندگی ہے نہ قیام ہے نہ بقا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارا بدن یا جسم ناشورہے (فنا ہونیوالا ہے) اورباقی رہنے والی رُوح ہے جونہ کٹ سکتی ہے نہ گُل سکتی ہے۔ اسی سے ہمارے بہت سے محاورے بنے ہیں۔ رُوح کے بھٹکنے کے معنی ہیں کہ انسان کا ذہن بھٹک رہا ہے اُس کو سکون نہیں مل رہا ا س سے ایک خیال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مرنے کے بعدانسان کی روح بھٹکتی ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت یا دوزخ یا اعراف میں چلی جاتی ہے تصورات ہیں جو اعتقاد ات میں بدل گئے
|