|
.
مگراس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا ہم سے تعلق ہمارے بدن اورہماری زندگی کے معاملات سے اس کا رشتہ انسانی نفسیات کا اوراؑس سے آگے بڑھ کر سماجیات کا ایک گہرا رشتہ ہے جس کی طرف مذکورہ محاورات اشارہ کرتے ہیں روح تھرّانا انتہائی خوفزدگی ہے سراسیمگی اورپریشانی کا عالم ہے۔
(۱۴)روغنِقازملنا۔
روغنِ قازملنا ایک عجیب وغریب محاورہ ہے ’’قاز‘‘جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک آبی پرندہ ہے۔ ایک خاص موسم میں اُڑکر اِدھر آتاہے اورپھرواپس چلا جاتاہے۔ اِس کا روغن ایک فرضی بات معلوم ہوتی ہے خاص طورپر اس لئے کہ کہ روغنِقاز ملنا ایک محاورہ بن گیا ہے اور اس کے معنی ہیں جھوٹ سچ بول کر یاخوشامدکرکے دوسروں کو بیوقوف بنانا اوریہی صورت حال ہمارے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
(۱۵)رونگٹے یاروئیںکھڑے ہونا، رُونگ رُونگ میں بسنا، رونمائی دینا ، روتی صورت یا شکل رومال پر رومال بھگونا۔
بعض محاورے سماجی زندگی سے اتنا تعلق نہیں رکھتے جتنا ان کا رشتہ ہمارے شاعرانہ طرز فکر سے ہوتا ہے رُونگٹے کھڑے ہونا سنسنی خیز ہونے کی ایک صورت ہوتی ہے جوایسی باتوں کو سن کر جوانتہائی دکھ درد والی ہوتی ہیں ہم جذباتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جیسے اُن کے مظالم کی کہانیاں سنکر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ۔ یاروم روم میں سنایا مرارونگٹا رونگٹا میرا حسان مندہے یا اس طرح کے محاورے شاعرانہ حیثیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اورتشبیہہ واستعارہ کی مبالغہ آمیز صورت کو پیش کرتے ہیں جیسے میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی رہیں۔ یا آگ کھائے گا انگارے اُگلے گایہ ایک طرح کی شاعری ہے عمل ہے اوراس معنی میں محاورہ معاشرت کے اس تہذیبی پہلو سے رشتہ رکھتا ہے جس کا تعلق ہماری شعروشعور سے ہے رُونمائی دینا رسم ہے ’’دلہن کو منہ دکھائی دی جاتی ہے‘‘ اوردولہا کو سلامی اس طرح کے محاورے اوربھی ہیں جس کا تعلق بڑی حدتک ہماری سوچ سے ہے طرز اظہار سے ہے ۔ تشبیہوں استعاروں سے ہے سماج کے کسی رویہ پر روشی ڈالنے سے نسبتا کم ہے جوہمارے لئے قابلِ گرفت یا لائقِ اعتراض ہوتا ہے ۔ ’’روتی صورت‘‘ یا مشکل بھی ایسے ہی محاوروں میں ہے رومال پررومال بھگونا یعنی بہت رُونا ہے یہ ایک شاعرانہ اندازِ بیان بھی ہے۔ اورایک صورتِ حال کی طرف اشارہ بھی ہے۔
(۱۶)ریت بِلونا، ریت کی دیوار کھڑی کرنا۔
ریت ایک طرح کی شاعری ہے اس لئے کہ ریت جمتانہیں ہے۔ بکھرتا رہتا ہے ریت کی دیوارکھڑی ہوہی نہیں سکتی اِس سے مراد ایک بے تکی اوربے بنیاد بات کو اٹھانا اوراس پر زوردینا ریت کی دیوار کھڑی کرنا ہے۔ ریت پانی نہیں ہوتا پانی کو بھی ’’بلونے‘‘ سے کوئی فائدہ نہیں کہ جتنا چاہے پانی کو بلو نے کا عمل کرو نتیجہ کچھ نہیں۔ دیوتاؤں نے سات سمندروں کو’’بلوکر‘‘ بھلے ہی اَمرت نکالا ہو آدمی تونہیں نکال سکتا چہ جائیکہ ریت کو ’’بلویا‘‘ جائے ۔سوائے دُھول اٹھنے یا دھول اڑنے کے کوئی نتیجہ نہیں ہوگا اسی بے نتیجہ بات کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا گیاہے۔ سماج کا رویہ یہاں بھی پیشِ نظررہا ہے کہ لوگ بے تُکی باتیں کرتے ہیں اوریہ نہیں دیکھتے کہ جوکچھ وہ کہہ رہے ہیں یاکررہے ہیں اُس کے کچھ معنی بھی ہیں یا نہیں ۔ اگرہم محاورات پرنظر ڈالیں اوراُن کے معنی کو زندگی کے مسائل ومعاملات سے جوڑکر دیکھیں توہم بہت کچھ نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ ریت کے ساتھ اوربھی محاورے ہیں جیسے’’ ریت مٹی ہونا‘‘ ریت کی طرح بکھرنا ریت کو مٹھی میں تھامنا اب یہ ظاہر ہے کہ زندگی کے تجربہ ہیں روزمرہ کے مشاہدہ ہیں کہ انسان کے نیک اعمال بھی اچھے کام بھی گاہ گاہ بُرے نتائج پیدا کرتے ہیں اس میں تقدیر کو بھی دخل ہوسکتا ہے اورتدبیر کو بھی سُوجھ بُوجھ کوبھی نہ سمجھی کوبھی جسے بے تدبیری کہنا چاہیے۔۔
|