|
ردیف ’’ز‘‘
(۱) زارزاررونا‘ زاروقطاررونا‘ زارونزار۔
یہ بھی ایک طرح کی شاعری ہے یا شاعرانہ اندازِ نظرہے کہ بے اختیار آنکھوںسے آنسوبہیں تواُسے ’’زاروقطار‘‘ رونا کہاجائے۔ ’’زارِیدن ‘‘کے معنی فارسی میں رونے کے ہیں اُسی سے ’’زار زار‘‘ اورقطار‘‘ کوشامل کرتے ہوئے زار وقطار رونا کہا گیا ہے۔ جیسے ’’گریہ بے اختیاربھی ‘‘کہتے ہیں یعنی جب رونے پر کوئی قابونہ ہو اورعالم بے اختیاری میں آنسوبہ رہے ہوںاورمسلسل رونے کاعالم ہو۔ ’’زارونزار‘‘ اس کے مقابلہ میں بہت کمزورآدمی کوکہتے ہیں جب اِس میں تاب وتواں نہ رہے وہ اپنے آپ کو سنبھال بھی نہ سکے کہ اُن کی حالت توبہت ہی زار ہے وہ زارونزار ہورہے ہیں۔یا ’’زارونزار‘‘ نظر آتے ہیں۔
(۲) زبان بدلنا پلٹنا ،زبان بگڑنا ، زبان بندکرنا، زبان بندہونا، زبان بندی کرنا، زبان پرچڑھنا ، زبان پکڑنا ، زبان تڑاق پڑاق چلنا، زبان چلنا ، زبان درازی کرنا، زبان چلائے کی روٹی کھانا، زبان داب کے کچھ کہنا ، زبان داں ہونا۔ زبان دینا، زبان روکنا، زبان سمجھنا، زبان نکالنا ، زبان دینا، زبان روکنا، زبان سمجھنا، زبان نکالنا، زبان سنبھالنا، زبان کو لے گئی، زبان کا چٹخارے لینا، زبان کے نیچے زبان ہے۔ زبان میں کانٹے پڑنا، زبانی جمع خرچ کرنا، زبانی منہ بات ہونا، زبان گھِسنا‘زبان گُدھی سے کھینچ لینا، وغیرہ وغیرہ۔
زبان قوتِ گویائی کی علامت ہے ہم جو کچھ کہتے ہیں اورجتنا کچھ کہتے ہیں اُس کا ہمارے ذہن ہماری زندگی سے گہراتعلق ہوتا ہے۔ دوست ودشمن تواپنی جگہ پرہوتے ہیں لیکن تعلقات میں ہمواری اورناہمواری میں بہت کچھ زبان کے استعمال کو دخل ہوتاہے کہ کون سا فِقرہ کہاجائے کس طرح کہا جائے اورکس موقع پر کہاجائے۔ لوگ زبان کے استعمال میں عام طورپر پھُوہڑ(بدسلیقہ) ہوتے ہیں اورالفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتتے جومنہ میں آجاتاہے کہہ جاتے ہیں زبان روکنے اورزبان کے اچھے بُرے استعمال پرنظر داری کا رویہ اُن کے ہاں ہوتا ہی نہیں یہی تکلیف کا باعث بن جاتاہے اوراچھے دِل بُرے ہوجاتے ہیں دلوں میں گِرہ پڑجاتی ہے یہ زبان کے صحیح اورغلط استعمال سے ہوتا ہے ۔ زبان کے استعمال میں لب ولہجہ کو بھی دخل ہوتاہے اورشیریں بیان آدمی محفل میں باتیں کرتا ہوا زیادہ اچھا لگتا ہے اوراپنی میٹھی زبان کی وجہ سے پسند کیاجاتا ہے خوش لہجہ خوش گفتار ہونا خوش سلیقہ ہونا بھی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں کی زبان اورلہجہ میں بے طرح کھُردارپن ہوتا ہے ایسے لوگ اکھڑ کہلاتے ہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زبان کااکھڑپن ذہنی ناگواری دلی طور پر ناخوشی کا باعث ہوتا ہے۔ اگر اِن محاوروں پرغور کیا جائے جو زبان اور طرزِ بیان سے متعلق ہے تو ہماری سماجی زندگی کی بہت سی نارسائیوں کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ اب یہ جُداگانہ بات ہے کہ ہم غور وفکر کے عادی نہیں ہیں زبان کے استعمال اور اُس کے اچھے بُرے نتائج کی طرف
|