|
.
اُن محاوروں میں اشارے موجود ہیں یہ گویا ہمارے اپنے تبصرے ھیں جو ذہنی تجزیوں اور معاشرتی تجربوں کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ ہم اُن سے بھی کوئی فائدہ اٹھانا نہیںچاہتے ۔ یہ بہر حال ہمارے سماجی رویہ کی بات ہے لیکن ہم نے اس کا احساس کیا اور محاورات میں اپنے محسوسات کو محفوظ کردیا ۔ یہ بڑی بات ہے اور اِس سے زبان کے تہذیبیاتی مطالعہ کے بعض نہایت اہم پہلو میسّر آگئے۔ لوگوں کو کہا جاتاہے کہ ان کی زبان ٹوٹی نہیں یعنی یہ دوسری زبان کے الفاظ یاآوازیں صحیح طورپر اپنی زبان سے ادا نہیں کرسکتے بعض لوگ برابر بولے جاتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان تالوسے نہیںلگتی بعض اپنے آس پاس کے لوگوں سے بہت خطرے میں رہتے ہیں ان کو بتیس دانتوں کے بیچ میں رہنے والی زبان سے تشبیہہ دیتے ہیں کچھ لوگ اپنی بات کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں۔ میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پوچھو مدُعا کیا ہے (غالبؔ) بعض لوگوں کواپنی زبان دانی پرفخر ہوتاہے اوروہ داغؔ کی طرح یہ کہتے نظرآتے ہیں۔ اُردو ہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغؔ سارے جہاں میں دُھوم ہماری زباں کی ہے غرض لوگ اپنے سامنے کسی کوبولنے نہیں دیتے وہ زبان آورکہلاتے ہیں بعض لوگوں کی زبان میں بہت تلخی اورکڑواہٹ ہوتی ہے وہ کڑوی زبان والے کہلاتے ہیں اسی طرح زبان کے بارے میں بہت سے محاورات کا لمباسلسلہ ہے جس میںکسی نہ کسی لحاظ سے زبان کا اپنا اسلوب اظہارطریقہ گفتگواورزبان پر قدرت کے پہلوسامنے آتے ہیں اوراُن پرتبصرہ دوسروں کی طرف سے ہوتا ہے اورایسے ہی فقرہ زبان کے بارے میں ہمارے یہاں بہت ملتے ہیں یہ شاعری میں توزیادہ کھیل ہی زبان کے حُسنِ استعمال کا ہوتا ہے اورلطف زبان پر دُوردیا جاتاہے اُردو کا شعرہے۔ بیانِ حُرمّٰتِ صہبا صحیح مگراے شیخ تری زبان سے اُس کا مزہ نہیں جاتا بہت سے شعروں کوہم زبان کی خوبصورتی کے اعتبار سے زبان کا شعرکہتے ہیںاوراِس طرح بیان کی داد دیتے ہیں زبان وبیان کی بات توہماری زبان پرآتی رہتی ہے ۔ گفتگوریختہ میں ہم سے نہ کر یہ ہماری زبان ہے پیارے (میرؔ)
(۳)زبانی جمع خرچ کرنا۔
ہماری زبان میں جوسماجی حیثیت رکھنے والے محاورے ہیں اُن میں زبانی جمع خرچ اس معنی میں بے حداہم ہیںکہ جمع اورخرچ صرف ’بہی کھاتہ‘ کی چیز نہیں ہم دلوں میں بھی حساب رکھتے ہیں‘‘ حسابِ دوستاں دردل اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے بھی نظرآتے ہیں کہ کوئی کہیں سمجھ لے اورکوئی کہیں اوریعنی ایک دوسرے کے عمل کو پیش نظر رکھو اورکسی نے ہمارے ساتھ نیکی اورخوش معاملگی برتی ہے توہم کوبھی برتنی چاہےئے۔ ہماری ایک سماجی کمزوری یہ ہے کہ ہم دوسروں کی نیکیوں کا حساب نہیں رکھتے اگریہ بھی ذہن میں رکھیںاوردل سے بھُلانہ دیں تومعاشرہ میں نیکیاں بڑھتی رہیں۔ ہم اسی کو بھلادیتے ہیں نتیجہ میں اچھا سلوک اوراچھا معاملہ کم سے کم ہوجاتاہے اوربُرائیاں بڑھ جاتی ہیں۔۔
|