|
.
کہ وہ توزمین پر پاؤں نہیں رکھتے۔ اب اس سے دوباتیں مُراد ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ ُان کے راستہ میں توفرش فروش بچھے ہوتے ہیں اوراُن کا پاؤں زمین سے نہیں لگتا یا نہیں پڑتا اب بھی شادی بیاہ کے موقع پر سرخ رنگ کا قالین Red Carpetبچھاتے ہیں ۔زیادہ نازونزاکت والے انسان کوبھی بطورِ طنز کہتے ہیں کہ ان کے پاؤں توفرشِ مخمل پربھی چھِل جاتے ہیں یہ فرش زمین پرکیوں پاؤں رکھنے لگے۔ جب انسان کے لئے اُس کا ماحول بہت تکلیف دے اور مایوس کُن ہوجاتا ہے توکہتے ہیں زمین اُس کے لئے سخت ہوگئی اورآسمان دُوریعنی نہ اُسے زمین پر جگہ ملتی ہے اورنہ آسمان کے نیچے پناہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زمین آسمان میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ زمین پکڑی نہیں جاسکتی اورزمین دیکھناکسی آدمی کو نیچا دکھانا ہے اورغالبایہ پہلوانوں کے فن سے آیا ہے کشتی کے فن میںکسی کو زمین پر گرادینا یا زمین پکڑوادینا بھی بڑی کامیابی کی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے زمین پرما تھا ٹیکنا اظہارِعاجزی ہے اسی سے فرشی سلام کا تصوراُبھرتا ہے اورماتھا ٹیکنے کا بھی۔ زمین ہمیشہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے اوراسی طرح بے حد مصیبت اورپریشانی کے عالم میں یہ کہتے ہیں کہ پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی یعنی اس کا کوئی موقع نہ رہا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا رہے اوراپنی کوشش پراعتماد کرسکے۔ زمین کا پیوندہوجانا مرجانا اورزمین میں دفن ہوجانا مرنے والوں کے لئے کہا جاتاہے جواظہار کا ایک شاعرانہ سلیقہ ہے پیوندیوں بھی ہمارے معاشرے اورسماجی زندگی کا ایک خاص عمل تھا اوراکثرغریبوں کے کپڑوں میں پیوند لگے رہتے تھے اورعورتیں کہا کرتی تھیں بی بی پیوند توہماری اوقات ہے۔ زمین ناپنا اِدھر اُدھر پھرنا جس کا کوئی مقصدنہ ہو اسی پرطنز سے کہا جاتا تھا کہ وہ توزمین ناپتا پھرتا ہے یا جاؤ زمین ناپویعنی کچھ بھی کرویہاں سے ہٹ جاؤ زمین میں گڑجانا حدبھرشرمندہ ہونا اوریہ محسوس کرنا کہ وہ اب منہ دکھلانے کے لائق نہیں ہے اسے توزمین میں گڑجانا چاہےئے یا اسی حالت میں آدمی کی یہ خواہش کرنا کہ کسی طرح زمین پھٹ جاتی اوروہ اُس میں سماجا تا۔ ہماری سماجی حسّٰیات محاوروں میں جومعنی پیدا کرتی ہیں اوراُن کی ہمارے معاشرتی زندگی میں جومعنویت ہوتی ہے محاوروں کے مطالعہ سے اُنہی اُمور کی طرف ذہن منتقل ہوتاہے۔ اوراِس طرح کے محاورے اِن سماجی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
(۷)زنانہ کرنا۔
مردانہ ہونا، ہماری معاشرتی زندگی کے ایک خاص حصّٰہ اورکچھ خاص طبقوں کی نمائندگی کرنیوالے محاورے ہیں مسلمانوں اورایک حدتک ہندوؤں سکھوں اورخاص طورپر راجپوتوں عورتوں کا انتظام الگ کیا جاتا تھا جومردوں سے الگ ہوتا تھا ایسا اب بھی کیا جاتا ہے مگرپابندی کم ہوگئی ہے۔ اسی کوزنانہ کرنا کہتے ہیں۔ ’’زن‘‘ کے معنی فارسی میں عورت کے ہیں اسی سے ہمارے ہاں زنانہ لباس زنانہ محاورہ اورزنانہ زیورات جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اِس کے مقابلہ میں مردانہ لفظ استعمال ہوتاہے۔ اورمحض مردانہ کہہ کرمکان کا وہ حصہ مراد لیا جاتاہے جہاں مردوں کا اٹھنا بیٹھنا اورمِلنا جُلنازیادہ ہوتا اُسی کومردانہ کہتے ہیں۔ پنجابی زبان میں زنانی عورت کو بھی کہتے ہیں اورزنخہ ہجڑوں کوکہا جاتا ہے زناخی وہ عورت جس میں’’ ہجڑہ پن‘‘ ہویہ لفظ دلّی اورلکھنؤمیں رائج رہاہے۔
(۸)زنجیرکرنایا پکڑنا، زنجیر ہِلانا، زنجیر کھڑکانہ۔
زنجیر سے متعلق بہت سے محاورے ہیں پیروں میں زنجیرڈالدی یعنی قیدکرلیا۔ اِس کو بیڑی ڈالنا بھی کہتے ہیں۔ بیڑی پہنانا بھی۔ ’’زنجیرکرنا ‘‘فارسی محاورے کاترجمہ ہے۔ جہاں زنجیر کردن کہا جاتا ہے میرؔکاشعرہے۔
بہار آئی دیوانے کی خبرلو اگر زنجیر کرنا ہے توکرلو۔
|