|
.
میں قیام اور اُس کے باشندوں سے تعلقات کے محاورے پر قدر ت ممکن نہیں یہ بات ہم اہلِ شہرکی زبان پر اُس حوالہ یا اس حوالہ سے برابرآتے ہوئے دیکھتے ہیں جن باتوں کا ذکرہمارے یہاں زیادہ آتا ہے وہ ہمارے معاشرتی رویہ کی نفسیات یا (سائیکی) کاایک بڑا حصّہ ہوتی ہے اس اعتبار سے بھی محاوروں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہمارے نفسیاتی ماحول میں داخل ہیںاورجن باتوں سے ہم بہت متاثر ہیں محاورات میں اُن کا ذکر آتا ہے اوراُن کے لئے باربار کوئی محاورہ ہمارے لبوں یا زبان قلم پر آتا رہتا ہے۔ محاورے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگی سے گہرارشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں مگربیشتر اوراُن کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا اِنفرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ داری ہے اسی طرح ہمارے اعضاء پر ناک، کان اورآنکھ بھوںسے ہمارے محاورات کاگہرا رشتہ ہے ۔ مثلاًآنکھ آنا، آنکھیں دیکھنا، آنکھوں میں سمانا ، اورآنکھوں میں کھٹکنا آنکھوں کا لڑنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اورکہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔ آنکھ سے متعلق کچھ اورمحاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔ آنکھ اٹھاکر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھانا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھ پھوڑٹڈا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھ بدل کر بات کرنا، رخ بدلنا آنکھوں میں رات کاٹنا،آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا۔ استعاراتی اندازِ بیان ہے۔جس کاتعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اورسماجی شعور سے بھی یہ بے حداہم اوردلچسپ بات ہے آنکھ بدل کر بات کرنا۔ناگواری ناخوشی اورغصّہ کے موڈمیں بات کرنا ہے جوآدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے ۔ آنکھیں اگرتکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں ۔ اوراُن میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تواُسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاںہونا کہتے ہیں یعنی یہ صورت تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرتی ہے نمک کی ڈلیا ںہونا کہتے ہیں۔ آنکھیںپتھرانا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ آنکھیں پتھر ہوگئیں ۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اورشام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ ہے جوگویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتاہے۔ آنکھ لگنا سوجانا اورکسی سے محبت ہوجانا جیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یاردوستوں نے اُس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پر آگیا ہے۔ اورکسی سے اس کی آنکھ لگی ہے۔ اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیںکہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں اورذہنی حالتوں کوصبح وشام کی وارداتوں اورزندگی کے واقعات کوہم نے مختصر اً محاورہ میں سمیٹا ہے اورجب محاورہ شعر میں بندھ گیاتووہ ہمارے شعوراورذہنی تجربوں کا ایک حصّہ بن گیا۔ راقمہ نے جن محاورات پر کام کیاہے اورجن کا تہذیبی مطالعہ پیش کیا گیا ہے وہ Proverbکے معنی میں آئے ہیں۔صرفSetting کے معنی میں نہیں Proverb(محاورے) سے لفظوں کی ایک ترکیبی یونٹ واحدہ ہوتا ہے جوایک خاص انداز سے ترکیب پاتا ہے اپنے معنی کا تعین کرتا ہے اوراپنی ہےئت اورصُورت شکل پر قائم رہتا ہے محاورہ کی زبان بدلتی نہیں ہے جس کا تعین ایک مرتبہ ہوگیا اُس کو ایک مستقل صورت مل جاتی ہے۔ راقمہ نے محاورات کے لفظ ومعنی کے اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اِس کے مقابلہ میں محاورات کے لفظ ومعنی میں تہذیب وتاریخ کے جومحرکات اورموثرات ملتے ہیں اُن کواُردو کی اپنی معاشرت کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اوراُس کے وسیلے سے بہت سے نئے معنی کا محاورات میں موجودہونے کا انکشاف کیا ہے اِس طرح کا کوئی کام اُردو میں اب تک نہیں ہوا۔ جس سے محاورات کی تہذیبی اورتاریخی اہمیت کا حال معلوم ہوسکے۔
مختلف لغات میں جو محاورات دوسرے الفاظ کے ساتھ شریک ہیں اُن کے معنی بھی لفظوں ہی
کے طورپر دےئے گئے ہیں اِن سے اخذِنتائج کاکوئی عمل وابستہ نہیںکیا گیا ۔ شہر دہلی
لال قلعہ نیز دہلی اورلکھنؤ کے محاورے میں جوفرق کیا گیاہے وہ اپنی جگہ ایک اہم کام
ضرور ہے مگرتہذیبی اورمعاشرتی نقطہ نظر سے ہنوز کوئی کام راقمہ کی محدود معلومات کے
مطابق ابھی تک نہیںہوا۔ دوشہر وں کی زبان کاالگ الگ انداز اُس میں ضرور زیر بحث آیا
ہے ۔ لیکن ہمارے سماج ہماری معاشرت اورہمارے تہذیبی رویوں سے محاورہ کا جو خاص
اورمعنی خیزرشتہ رہا ہے اُس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی اِس پر بھی صاحبانِ قلم نے
کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ ہمارے یہاں جو محاورات موجود ہیں اورہماری زبان کا حصہ ہیں
اُن میں سے بعض پر دوسری زبانوں۔
|