|
ردیف’’س‘‘
(۱) سات پردوں، یا سات تالوںمیں چھُپا کر رکھنا،سات دھار ہوکرنکلنا۔
سات کا عددہماری تہذیبی زندگی اورتاریخی حوالوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں مذہبی حوالہ بھی شامل ہیں ۔ ہم سات آسمان کہتے ہیں سات بہشتیں کہتے ہیں ۔ سات سمندرکہتے ہیں قوسِ قزح (دھنک) کے سات رنگ کہتے ہیں۔ سات ستارے کہتے ہیںیہ سب گویا ہماری سماجی فِکرکاحصہ ہیں اِس کو اگرہم محاورات میں دیکھتے ہیں توہمیں اس کا مزید احساس ہوتاہے کہ سماجی زندگی سے سات کا عددکس طرح جڑا ہوا ہے کوئی چیز تالوںمیں بند کی جاتی ہے توایک سے زیادہ تالے لگائے جاتے ہیں کہتے ہیںلیکن محاورے کے طورپر سات تالوںمیں بندکرنا کہتے ہیں اوراس طرح کہتے ہیں اوراس طرح پردوں کے ساتھ سات پردے کہتے ہیں۔ مقصدتاکید اورزیادہ سے زیادہ توجہ کی طرف ذہن کو منتقل کرانا ہوتا ہے اوراُس سے سماجی فکر کو سمجھنے میں مددملتی ہے ۔ جب کوئی بات ہماری نفسیات کا جُزبن جاتی ہے تووہ ہمارے لسانی حوالوں میں آتی رہتی ہے اوراُس کے محاوروں میں شامل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری نفسیات میں گہرا دخل رکھتی ہے اصل میں لٹریچر کا مطالعہ سماجی نقطہ نظر سے یا ایک معاشرتی ڈکشنری کے طوپر نہیں ہوتا ورنہ محاورہ صرف زبان کا اچھا قدیم رویہ نہیں ہے جوفرسودہ ہوچکا ہو یہ صحیح ہے کہ ہم شہری زبان میں اب محاورے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے قصباتی اورطبقاتی زبان میں ضرور محاورے کی اہمیت ہے لیکن محاورہ سماج کو سمجھنے کے لئے اورمختلف سطح پر محاورے استعمال اس کے رواج اورسماج سے اس کے رشتہ کے بارے میں جتنی معلومات ہمیں محاوروں سے ہوسکتی ہے وہ شاید لٹریچرکے کسی دوسرے لسانی پہلو اورادبی رویہ سے نہیں ہوسکتی ۔ سات دھار ہوکر نکلنا یہ ایک اہم بات ہے اوراس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم بہت سے اُمور کو سات کے دائرے میں لالاکر رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں زیادہ ترچشمے ایک دھارے میں پھوٹتے ہیں یا ایک سے زیادہ دھاروں میں مگر سات دھارے ہمارے روایتی اندازِفکر کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے کہ دھاروں کے ساتھ سات کا عدد ضروری نہیں ہے۔ لیکن تہذیبی نقطہ نظر سے سات دھاروں کا تصوربڑی اہمیت رکھتا ہے۔
(۲)ساز بازکرنا۔
ساز کا لفظ فارسی ہے ’’ساز ‘‘ کسی بھی آلہ موسیقی کو کہہ سکتے ہیں ’’باز‘‘ کے معنی ہیں کھولنا یا دوبارہ حاصل ہونا جیسے ’’باز یافت‘‘ اسی معنی میں دوبارہ پاجانے کے عمل کو کہتے ہیں۔ ’’ساز‘‘ کسی لفظ کے ساتھ مِلا کر اِسم فاعل بھی بناتے ہیںجیسے گھڑی ساز ، سُمن ساز ،تاریخ ساز یہ فارسی زبان کے اردُو پر اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح ’’باز‘‘ کا لفظ بھی جب کسی لفظ کے ساتھ ملادیا جاتا ہے تواسم فاعل بن جاتاہے جیسے ’’پٹہ باز‘ ‘ ’’بلَّے باز‘‘ یہاں تک کہ ’’تگڑم باز‘‘ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِن دولفظوں کو ملاکر ایک نئے معنی نکالے گئے یعنی ’’سازش‘‘ کہ اِس نے اِس معاملہ میں دوست یا دشمن کے ساتھ ساز باز کرلی۔ اِس اعتبار سے یہ ہماری سماجی زندگی سے گہرا رشتہ رکھنے والا ایک محاورہ بن جاتاہے۔ لفظوں کا معاملہ عجیب ہے یہ طرح طرح کے معنی دیتے ہیں بعض معنی ذہن کو علمی بڑائی اورادبی خوبصورتی کی طرف لے جاتے ہیں اوربعض سماج کی ذہنی اورعملی بدصورتیوں کو ظاہرکرتے ہیں الفاظ وہی ہوتے ہیں۔ لیکن معنی میں زمین آسمان کافرق پیداہوجاتاہے اوریہی زبان کا سماجی استعمال ہے۔
|