|
.
اسی کے لئے یہ کہاوت ہے کہ بہن کے گھربھائی ’’کُتا‘‘اورساس کے گھر ’’جوائی‘‘ کتا۔
(۲۱) سنبھالا لینا۔
قوموں کے لئے بھی یہ کہا جا تا ہے کہ انہوںنے سنبھالا لیا یعنی زوال کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ سدھر گئیں یعنی ان کے حالات کچھ بہترہوگئے بیمار کا سنبھالینا وقتی طورپر ہی سہی صحت کا بہتر ہوجانا ہے۔ ذوقؔ کا شعر ہے اوراس محاورے کے مختلف پہلوؤں کو ظاہرکرتا ہے۔ بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تواچھا اس میں سنبھلنا سنبھالنا اورسنبھالا لینا تینوں چاروں آگئے۔ ۱۹۲۰ء کے قریب ترکی کو مرد بیمار کہا جا تاتھا سنبھالا لیتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری زندگی ہماری تاریخ اورہماری سماجی زبان کو پیش کرتے ہیں اورایک حوالہ کاکام دیتے ہیں۔
(۲۲) سوجان سے عاشق ہونا‘ سوجان سے صدقے جانا‘ یا نثار ہونا یا نچھاور ہونا۔
ہمارے یہاں صدقے قربان ہونا محاورہ ہے صدقہ ایک مذہبی اصطلاح بھی ہے جس کے ساتھ صدقہ دینا آتا ہے یا صدقے کرنا آتا ہے یعنی کسی کی جان کی حفاظت یا مال کی حفاظت کے خیال سے خیرات کرنا ۔ ہم اس عمل کو طرح طرح سے دھراتے ہیں مثلاً جب ڈومیناں گاتی تھیں توان کورواں پھیر کرکے روپے پیسے دےئے جاتے تھے وار پھیراس شخص کے لئے ہوتی تھی جس کی جان کا صدقہ دینا منظور ہوتا تھا یہی صورت اس وقت ہوتی تھی جب بھگنیں بدھاواپیش کرتی تھیں یعنی مبارک باد کے لئے گانا اور ناچنا کسی کے ہاتھ سے فقیر کو پیسے دلوانا بھی صدقہ دینے یا صدقہ کرنے کے مفہوم میں شامل ہوتا تھا۔ قربان کرنا بھی اسی معنی میں آتا تھا دہلی میں اب بھی دستور ہے کہ اگرکوئی بیمار ہوتا ہے تواس کے نام پر جانور قربان کیا جاتا ہے ہندوؤں میں دُودھ دریاؤں میں بہانہ یا تالابوں اورپوکھروں کے کناروں پر جانور ذبح کرنے کو صدقہ کے مفہوم میں شامل کرتے تھے اب بھی راجستھان میں ایسا ہوتا ہے بنگال میں’’ بھینا‘‘ قربان کیا جاتا ہے اِس کو بَلی چڑھانا کہتے ہیں۔ عربوں میں جس اوٹنی کوایسے کسی مقصد کے لئے’’نحر‘‘کیا جتا تھا خاص طریقے سے کاٹنا توبلیَّہ کہتے تھے انسان کی اپنی قربانی بھی دی جاتی تھی ۔ قدیم قوموں میں اس کا دستوررہا ہے یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی قربان کئے جاتے تھے غلاموں اورباندیوں کے ساتھ تویہ سلوک عام تھا اور اُن کی بوٹیاں کرکے چیلوں کو ؤں کو کھلائی جاتی تھیں۔ ہمارے یہاں جس سے محبت کی جاتی ہے اُس پر اپنے آپ کو صدقہ وقربان کیا جاتا تھا۔ اورمحاورے کے استعما ل کے وقت سوجان سے صدقہ وقربان ہونے کی بات کی جاتی ہے۔
(۲۳) سُورج کو چراغ دِکھانا۔
سُورج ہماری دنیا کی سب سے روشن تابناک اور حرکت وحرارت سے بھری ایک قدرتی سچائی ہے نورانی وجود ہے اسی لئے اس کی پوجا کی جاتی ہے اورقدیم قوموں کے زمانے سے اب تک ہوتی رہی ہے چراغ اس کے مقابلے میں انسان کی اپنی ایجاد ہے جس کا سورج سے کوئی مقابلہ نہیں۔ سماجی طورپر جب کسی ادنی بات یا ادنی دلیل کو کسی بڑی بات یا بڑی دلیل کے مقابلہ میں سامنے لا یا جاتا ہے تواس عمل کو سُورج کوچراغ دکھانا کہا جا تاہے ۔گلزارِ نسیم میں ایک موقع پر یہی محاورہ آتا ہے ۔
اُن کے آگے فروغ پانا سورج کو چراغ ہے دکھانا
|