|
.
سسُرال میں گذاری جانے والی پہلی رات‘ اس کے لئے سہاگ رات کہلاتی ہے‘ اوراُس پر دولہا دلہن کو اوردونوں طرف کے سمندھانوں کو مبارک باد دی جاتی ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماجی رشتوں کا قیام اسی رشتہ سے وابستہ ہوتا ہے جس کی خوبصورت یاد اورنشانی سہاگ رات سے وابستہ ہوتی ہے۔ سُہاگ اترنا اس کے مقابلہ میں بہت بدقسمتی اورنخوست کی بات ہوتی ہے بعض قومیں سرکے بال اتروادیتے ہیں رنگیں کپڑے چوڑیاں اورزیورات توعام طورپر سُہاگ سے محروم ہونیکے بعد عورتیں اتاردیتی ہیں ایسے موقعوں پر جوایک سُہاگن کے لئے جو سہاگ سے محروم ہوگئی ہو بہت ہی المناک بات ہوتی ہے یہی سہاگ اترنا بھی ہے۔ ہمارے یہاں عورتوں کوایک دعا یہ بھی دی جاتی ہے جوہمارے سماج کا آئیڈیل ہے کہ تم بوڑھہ سہاگن ہو یعنی بڑھاپے تک سہاگ قائم رہے’’ سُہاگ‘‘ سے محروم قدیم قوموں میں اتنی بڑی بات سمجھی جا تی تھی کہ بیوہ ہوجانے والی عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ زندہ دفن کردیا جاتا تھا یا ستی کی رسم کے مطابق زندہ جلا دیا جاتا تھا مصرمیں بادشاہوں کی موت کے بعداس سے وابستہ بیویاں اورباندیاں زہرملاکر ماردی جاتی تھیں۔
(۲۸) سیپی جیسا منہ نکلنا یا نکل آنا۔
کمزورہوجانے کوکہتے ہیں جب آدمی کے چہرے پر ذرا بھی گوشت دکھائی نہ دے صرف کھال اور ہڈیاں رہ جائیں تواس حالت کو سیپی جیسا منہ نکل آنا کہتے ہیں اس سے ہم اپنے سماج کی شاعرانہ روش کو سمجھ سکتے ہیں شاعر توتشبہیں اوراستعارے پیدا کرتے ہی ہیں عام آدمی بھی اپنی بات کو سمجھنے اورسمجھانے کے ئے تشبیہات کا سہارا لیتا ہے سیپی سے دبلے پتلے منہ کو تشبیہہ دینا اسی فکری عمل کا نتیجہ ہے جس سے کسی معاشرے تہذیبی مزاج کو سمجھا جاسکتا ہے۔
(۲۹) سیج چڑھنا ، شبِ زفاف
دراصل شادی شدہ ہونے کوکہتے ہیں شادی کے معنی ہیں عورت ومرد کے آپسی طورپر جنسی روابط جس کے لئے ایک شادی ہوجانے والے جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اورخلوت میںاظہارِ تعلق کرنے کا موقع مل جاتا ہے اسی لئے ان کی جائے ملاقات کو سیج چڑھنا کہتے ہیں یہ تعلق زندگی کا سب سے اہم رشتہ ہے کہ سارے واسطے اسی ایک تعلق کے مرکزی دائرے کے گرد گھومتے ہیں اگرسیج کا یہ رشتہ درمیان میں نہ ہو توباقی رشتے بھی جوخون سے تعلق رکھتے ہیں اورنسل سے وابستہ ہیں باقی نہ رہیں اورقائم ہی نہ ہوں’’ شبِ زفاف‘‘ بھی جسے دلی والے’’ تخت کی رات‘‘کہتے ہیں اسی ضمن میں آتا ہے مزید ملاحظہ ہو سہاگ رات ۔ بعض الفاظ محاورے اورلفظی ترکیبیں اہلِ علم سے تعلق رکھتی ہیں بعض اہلِ ادب سے اوربہت سے لفظ طبقہ عوام سے ۔
(۳۰) سید ھیاں چڑھنا۔
اس اعتبار سے ایک اہم محاورہ ہے کہ سیدھ اور سیدھی قدیم ہندوتہذیب کا ایک مقدس مرحلہ ہے یعنی گیان حاصل ہونا جب کہ یہاں بالکل اُس کے خلاف بات کہی گئی ہے اوراس سے سماج کے اُس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ سچائیاںاوراچھائیاںکس طرح اپنے معنی بدل دیتی ہیں اوربات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں۔ ’’سیدھانا‘‘ یا سُدھانا ہماری زبان میں تربیت کرنے کے معنی میں آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ سدھایا ہوا آدمی ہے یابندہ ۔ہندوکلچرمیں سادھنا ‘دھیان‘ گیان کی ایک صورت ہے اسی لئے ایک خاص طبقہ کے لوگ ’’سادھو‘‘کو کہتے ہیں جو ہندوکلچرمیں ایک بہت اہم روحانی تربیت کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر سیدھا کرنا ایک ٹیٹرپی میڑھی چیز کو یا بُرے کردار کو درُست کرنے کے لئے آتا ہے اورسےّٰدھی کا مفہوم اُس سے غائب ہوتا ہے۔
|