|
.
کے کیا اثرات ہیںعربی فارسی ہندی اوردیہاتی کا اُن پر کیا اثرہے اوراُن کی لفظیات کو کس طرح دوسری زبانوں نے متاثر کیا ہے یہ اہم مسئلہ بھی محاورات پر علمی اورادبی کام کرنیوالوں کے سامنے نہیں آیا اُن کی توجہ زیادہ تر لُغت پر رہی ہے اوراُسی دائرہ میں رہ کر انہوںنے سوچا اوراپنے طورپر پُروقار کام کیاہے۔ ایسے لغت بھی تیار ہوئے جس میں محاورات کولفظی وحدتوں کے طورپر جمع کیا گیا اوراُن کے معنی بتلائے گئے ہماری درسیات میں یہ شامل رہا ہے کہ محاورات پر اُن کے معنی سمجھانے کے لئے ضرورروشنی ڈالی جائے اورمعنوی سطح پر لغوی نقطہ نظر سے اُن کے معنی لکھ دےئے جائیں لیکن محاورے وہ شہروں میں رائج ہوں یا قصبہ میں ادبی زبان میں یا عام بول چال میں اُن کا ہماری تہذیبی ماحول سے کیا رشتہ ہے اِس طرف ہنوز کسی کی توجہ مبذول نہیں ہوئی۔ محاورات پر دوسرے اہلِ قلم نے جوکام کیا ہے اُس کی نوعیت بہرحال جُدا گانہ ہے وہ کام اُس نقطہ نظر سے نہیں ہوا جو راقمہ کے سامنے رہا ہے۔ آج تو اِس کی بھی بہت ضرورت ہے کہ اُردومیں محاوروں کو جمع کیا جائے اورلُغت المحاورات مُرتب کی جائے پہلے ایسا ہوتا رہا ہے اس کی ایک نمایاں مثال چرنجی لال کی معروف تصنیف مخزن المحاورات معروف کتاب سے بہت پہلے شائع ہوچکی ہے مولانا سید احمد دہلوی کی معروف لغت آصف الغات اور نورالغات مصنفہ مولانا نورالحسن علوی کا کوروی بھی اپنے دامن میں بہت سے محاورات کوسمیٹے ہوئے ہیں۔ راقمہ کے اس کام کونوعیت اِس سے مختلف ہے اور وہ محاورات کی صرف جمع آوری یا اُن کی (لغوی) سطح پرمعنی نگاری نہیں ہے بلکہ اُن کی تہذیبی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش ہے کہ ہمارے محاورے اپنے لفظ ومعنی میں کس حدتک تہذیبی تصورات یا تصویروں کوجمع کئے ہوئے ہیں کہ یہ ایک جُدا گانہ کام ہے بلکہ محاورات کا ’’ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ ہے کہ وہ ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری معاشرتی فکراور تہذیبی تقاضوں کی طرح عکاسی کرتے ہیں۔ راقمہ سُطورنے اِسی نقطہ نظر سے محاورے کے مطالعہ اوراُن کے پیش کش کا یہ منصوبہ اپنے سامنے رکھا ہے اوراس پر اپنی محدود نظر کے مطابق محاورات کو جمع کرنے کے علاوہ اُن پر تنقیدی اورتہذیبی گفتگو کی ہے محاورات کوحروفِ تہجی کے تحت رکھا گیا ہے۔ اوراِس ضمن میں نسبتاً اہم محاورات ہی کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور اِس کا اظہا رکیا گیا ہے کہِاس محاورہ سے ہمارے ذہن زندگی اورزمانہ کا کیا رشتہ ہے۔ ہم اپنے معاشرتی رویوں کو اس لئے بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری تہذیبی تاریخ جن جن مرحلوں سے گذری ہے اورجن معاشرتی آداب ورسوم نے ہمارے طبقاتی معاشرے علاقائی سطح پربننے بگڑنے والے سماج کو متاثر کیا ہے۔ اُن کی ایک متحرک تصویر سامنے آتی ہے۔ راقمہ الحروف کے سامنے اُردو کا وہ لغت خاص طور پررہا ہے جومحاور ات پر مشتمل ہے۔ اورجسے چرنجی لال نے ترتیب دیا ہے اِس کانام مخزن المحاورات ہے چرنجی لال نے۲۵!مئی ۱۸۸۶ء میں منشبی بُلاتی داس دہلوی کے مطبع سے شائع کیا ۔ اِس کے کاتب کانام سیدعبداللطیف اوراُس کے ساتھ ساکن سبزمندی بیرونِ شہر لکھا ہواہے۔ اِس کے بعدغلط نامہ کے صفحات آئے ہیں جن کا سلسلۂ تحریر ونگارش سات سوا کسٹھ 761صفحہ پر ختم ہوتا ہے اس کے بعدتمام شدتحریر ہے اِس کے ذیل میں قطعہ تاریخ بابو ٹھاکر گلاب سنگھ صاحب متخلص بہ مشتاق سب درسیر ہنر جمن غربی ڈویزن دہلی ساکِن شہر میرٹھ لکھا ہوا ہے۔
قطعہ لکھتے ہیں اِس کتاب میں مُشتاق خوب اُردو مُحاوروں کے حال میں نے بھی اس کا بے سرا عدا نسخہ بے نظیر لکھّا سال
۱۸۸۶ ۔
|