|
.
اسی لئے برے عمل کے نتیجے کو شامت آناکہتے ہیں اور اردومیں شامت کے معنی ہی برے نتیجے کے ہیں کسی مصیبت کے پھنسے کو شامت آنا کہتے ہیں غالبؔ کاشعرہے۔ گدا سمجھ کے وہ چُپ تھا مری جوشامت آئی اٹھا اوراُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے
(۶) شاہ عبَّاس کا عَلم ٹوٹنا۔
تعزیہ داری اورمجالسِ محرم کا ایک نہایت اہم مرحلہ’عَلم‘‘ نکالنا ہوتا ہے یہ محرم کی سات تاریخ کی رسم ہے اس تاریخ کو محرم کے ’’عَلم‘‘اٹھائے جاتے ہیں ان میں ایک خاص ’’عَلم‘‘وہ ہوتا ہے جس میں اوپر کی طرف ایک چھوٹی سی مُشک لٹکی ہوتی ہے یہ حضرت عباس کا’’ عَلم‘‘ ہوتا ہے مشک اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضرت عباس کا علم ہے جوسقّہ حَرم کہلاتے تھے اورکربلا میں جب اہلِ بیت پرپانی بند کیا گیا تھا تووہی دریائے فراط سے پانی مشک بھرکر لائے تھے اوردشمنوں کا مقابلہ کیا تھا۔ حضرت عباس کا ’’عَلم‘‘ خاص طورپر احترام کا مستحق قراردیا جاتا ہے اورحضرت عباس کی درگاہ واقع لکھنؤپر’’عَلم‘‘ چڑھانا شیعوں کے یہاں ایک مذہبی رسم بھی ہے جومنت کے طورپر ادا کی جاتی ہے۔ حضرت عباس حضرت اِمام حسین کے چھوٹے بھائی تھے مگران کی ماں دوسری تھیں حضرت عباس حضرت امام حسین کے بڑے وفادار اوراہلِ بیت کے نہایت ہی فداکار تھے حضرت عباسؑ کے’’ عَلم‘‘ کے ساتھ ٹوٹنے کا محاورہ بھی آتا ہے جوایک بددعا ہے اوربدترین سزا خیال کی جاتی ہے جسے ہم کہتے ہیں جھوٹے پرخدا کی مارپڑے۔
(۷) شرع میں رخنہ ڈالنا‘شرع پرچلنا۔
شرع سے مُراد ہے شرعیت اسلامی دستور اورقانون اورمذہبی قانون اسی لئے اُس کا احترام بہت کیا جاتا ہے اورذرا سی بات اِدھر اُدھر ہوجاتی ہے تواُسے مولویوں کی نظرمیںبِدعت کہا جاتا ہے اورمذہب پسند طبقہ اسے شرع میں رخنہ ڈالنا کہتا ہے ’’رخنے ڈالنا‘‘ خود بھی محاورہ ہے اوراس کے معنی ہیں الرچیس پیدا کرنا روکاوٹیں کھڑی کرنا اس سے ہمارے معاشرتی طبقہ کے ذہنی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کن باتوں پر ذور دیتے ہیں اورکن رویوں کو کس طرح سمجھتے ہیں اورپھِرکنِ الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہیں الفاظ کا چناؤ ذہنی رویوں کاپتہ دیتا ہے۔ محاورے میں الفاظ کی جونشست ہوتی ہے اُسے بدلا نہیں جاتا وہ روزمرہ کے دائرے میں آجاتی ہے جس کا تربیتی ڈھانچہ توڑنے کے اہلِ زبان اجازت نہیں دیتے وہ ہمیشہ جوںکا توں رہتاہے یہ محاورے کی ادبی اورسماجی اعتبار سے ایک خاص اہمیت ہوتی ہے شرع پر چلنا ایک دوسری صورت ہے یعنی قانونِ شرعیت کی پابندی کرنا جس کو ہم اپنے سماجی رویوں میں بڑی اہمیت دیتے ہیں۔
(۸) شرم سے پانی پانی ہونا۔
ہمارے ہاں جن محاوروں کی خاص تہذیبی اہمیت ہے اُن میں اظہارِ ندامت کرنے سے متعلق محاورے بھی ہیں اِس سے معاشرے کے عمل وردِعمل کا پتہ چلتا ہے ایک عجیب بات یہ ہے اوراس سے سوسائٹی کے مزاج کو سمجھنے میں مددملتی ہے کہ ہماری زبان میں شکریہ سے متعلق محاورے کیا ہوتے شکریہ کا لفظ بھی قصبات اوردیہات کی سطح پر موجودنہیں ہے ہندی میں بیشک ابھاری ہونا کہتے ہیں مگردیہات وقصبات کی سطح پراس لفظ کی پہنچ بھی نہیں ہے اس کے مقابلہ میں اظہارِ شرمندگی کے لئے ایک بہت پرکشش اوربامعنی محاورہ آتا ہے اوروہ ہے شرم سے پانی پانی ہونا۔
|