|
.
وہ اُن کو بھگانا چاہتا ہے تووہ سارے اُسے بھگاتے ہیں ایک طِلسم بندی میں بند جا تا ہے یہیں سے ایک دلچسپ محاورہ بن گیا شیش محل کا کتا ہونا وہ ایک شاعرانہ محاورہ ہے اورداستانوںکی فضاء کو پیش کرتا ہے۔
(۲۰) شیشے میں اُتارنا۔
شیشہ آئینہ کوبھی کہتے ہیں اورشراب کے اُس برتن کوبھی جس سے شرابِ جام میں اُنڈیلی جاتی ہے اس کے علاوہ شیشے کا ایک طِلسمی تصوربھی ہے کہ پریوں کوشیشے میں قید کیا جاتا ہے اسی سے محاورہ پیدا ہوا ہے اگرکسی آدمی سے معاملہ کرنا مشکل ہوتا ہے اورکسی نہ کسی طرح اس مشکل پر قابوپالیا جاتا ہے تواسے شیشے میں اتارنا کہتے ہیں داستانوں میں پریوں کے کردار آتے ہیں پریاں کسی کے قابومیں نہیں آتیں مگرکسی نہ کسی ترکیب اورطریقہ سے انہیں بھی قابومیں کیا جاتاہے تواسے کہتے ہیں شیشے میں ’’پری کواُتارلیا ‘‘یعنی اُسے قابومیں کرلیا جوقابومیں نہیں آتا۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذکرسکتے ہیں کہ طِلسماتی کہانیوں کا ہمارے ذہن زبان اورادب میں جواثرہے اسے ہم اپنے محاورات میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ زبان کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کا دخل ہوتا ہے ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے اوروہیں سے پھراُس سوچ یا اس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں اوروہ محاورات کے سانچے میں کچھ ڈھلتے ہیں اورایک طرح سے Preserveہوجاتے ہیں۔
(۲۱) شیطان اُٹھانا، شیطانی لشکر، شیطان سرپراُٹھانا، شیطان کا کان میں پھُونک دینا، شیطان کی آنت شیطان کی خالہ ، شیطان کی ڈور ، شیطان کے کان بہرے ، شیطان ہونا‘ شیطان ہوجانا۔
’’شیطان ‘‘بُرائی کاایک علامتی نشان ہے جوقوموں کی نفسیات میں شریک رہا ہے خیراور شر بھلائی اوربُرائی معاشرہ میں مختلف اعتبارات سے موجود رہی ہے اسی کا ایک نتیجہ شیطان کا تصوربھی ہے کہ وہ بُرائیو ںکا مجسمہ ہے اور بداعمالی کا دیوتا خیر کا خدا وند یزدانِ پاک ہے اوربُرائی کا سرچشمہ شیطان کی ذات ہے۔ اب آدمی جوبھی بُرائی کرے گا اُس کی ذمہ داری شیطان پرڈالدی جائے گی اورکسی نہ کسی رشتے کو شیطان ہی کو سامنے رکھا جائے گا اگرکوئی بے طرح غصہ کرتا ہے تویہ کہیں گے کہ شیطان اُس کے سرپر سوار ہے اُس کے سرچڑھا ہے اگرکوئی آدمی بُرا ہوگا توکہیں گے کہ وہ توشیطان ہیں اگرکسی سے کوئی برائی وجودمیں آتی ہے توکہتے ہیں کہ شیطان موجود ہے اس نے کروائی ہے یہ برائی کروادی اگریہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس برائی کا ذمہ دارآدمی ہے توکہتے ہیں کہ آدمی کا شیطان آدمی ہے یعنی برائی کی ہرنسبت شیطان کی طرف جاتی ہے کہ انسان کی یہ ایک فطرت اورمزاج ہے کہ وہ ذمہ دار خودہوتا ہے لیکن اُسے تسلیم نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ کسی دوسرے کے سرڈالتا ہے یہ ہمارا سماجی رویہ آئے دن ہمارے سامنے آتا رہتا ہے اتنی فلسفیانہ طورپرشیطان کے وجود پر جنم دیا اورشیطان سے نسبت کے ساتھ بہت سی بُرائیوں کو پیش کیا جس کی نسبت اُسے اپنے سے کرنی چاہیے تھی وہ دوسروں سے کردی مذہبوں نے بھی اپنے طورپر اس تصور کو ایسی سوچ اور Approchمیں داخل کرلیا۔
(۲۲) شین قاف۔ اُردُو زبان اپنے لب ولہجہ اورمختلف لفظوں کے تلفظ کے اعتبار سے ایک ایسی زبان ہے جس کو مختلف لوگ بولتے اورالگ الگ بولیوں والے اپنی سماجی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اس میں ایسے حروف موجود ہیں جس کا تلفظ ہمارے عام لوگ کرہی نہیں سکتے ہیں۔جیسے’’ث‘‘ ذ’’ص‘‘ض‘‘ظ،ع، غ اور ف۔ اس لئے کہ یہ حُروف ہماری دیسی زبانوں میں موجود ہی نہیں اس پر بھی’’ شین‘‘ کو چھوٹے ’’س‘‘ سے بدل دینا اور’’قاف‘‘ کو چھوٹے ’’کاف ‘‘سے اورمُنشی ‘کو ’’منسی‘‘ کہنا اورقلم کو ’’کلم‘‘کہنا بہت بُرا لگتا ہے اسی لئے جب کوئی شخص بولتے وقت شین قاف کی دُرستگی کا خیال رکھتا ہے۔
|