|
ردیف ’’ص‘‘
(۱)صاحب سلامت۔
سلام ہمارے تہذیبی رویوں اوررسموں کا ایک بہت اہم حصّٰہ ہے ہم بڑوں کو بھی سلام کرتے ہیں برابر والوں کو بھی اوراپنے سے چھوٹو ںکوبھی بادشاہوں کوسلام بہت سادہ طریقہ پرنہیں کیاجاتا۔ وہاں سات بار زمین بوس ہوکر کورنیش بجالاتے ہیں جسے درباری سلام کہہ سکتے ہیں مُجرا اربابِ نِشاط کا سلام ہوتا ہے۔ ہم سلام مُجرا ایک ساتھ بھی کہتے ہیں اوراُسے محاورے کے طورپراستعمال کرتے ہیں آداب اُمراء کا سلام ہے اورتسلیمات اُس کے ساتھ جُڑا رہتا ہے السلام علیکم گویا برابری کا سلام ہے چھوٹا طبقہ باقاعدہ سلام نہیں کرسکتا وہ’’ صاحب‘‘ سلامت‘‘ کہتا ہے ہمارے معاشرے میں جو اونچ نیچ ہے۔ اُس کا اثرسلام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ ’’صاحب ‘‘کا لفظ مالک کے معنی میں آتا ہے ہم اُس کو احترام کے طورپر بھی استعمال کرتے ہیں۔ سکھّٰوں میں’’ صاحب‘‘ کے وہی معنی ہیں جوہمارے ہاں شریف کے ہیں اسی لئے وہ گرودارصاحب کہتے ہیں عام طور پر صاحب انگریزوں کو صاحب کہتے رہے ہیں اِس سے پہلے بیگمات اورشہزادیوں کے لئے بھی صاحب کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔غالبؔ کے زمانے میں گھرکی خواتین کو بھی ’’صاحب‘‘ لوگ کہا کرتے تھے اب یہ ایک طرح کا محاورہ ہے ۔
(۲) صاحبِ نسبت ہونا۔
صوفیا نہ اِصطلاح ہے اوراُس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو فلاں صوفی خانوادے سے نسبت ہے اس کو وہاں سے رُوحانی فیض پہنچاہے اسی لئے فارسی میں یہ مصرعہ کہا گیا جوبہت شہرت رکھتا ہے۔ گرچہ خو ردیم نسبتے است بزرگ اگرچہ ہم چھوٹے ہیں لیکن ہماری نسبت بڑی ہے اس معنی میں صاحب نسبت ہونا ایک سطح پر محاورہ بھی ہے۔
(۳) صاف اُڑانا‘ صاف انکارکرنا‘صاف جواب دینا‘ صاف نکل جانا۔
ہماری سماجی عادتوں کمزوریوں یا برائیوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم جس بات کوسننا یا جاننا نہیں چاہتے اُس کی اُن دیکھی کرتے ہیں جیسے ہم نے سناہی نہیں یا ہمارے علم میں ہے۔ نہیں اوریہ سب کچھ جان کرہوتا ہے ہم دانستہ انجان بنتے ہیں اِس سے ہم اپنے سماجی رویوں کے مطالعہ میں مددلے سکتے ہیں۔ صاف نکل جانا بھی اسی مفہوم سے قریب تراِس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے یعنی ذمہ داریوں سے بچ نکلنا اور یہی ہمارا معاشرتی مزاج بھی ہے۔
(۴) صبح خیز،صبح خیزے، صبح خیز ہونا۔
صبح کواٹھنے والا صبح خیز کہلاتاہے یہ عبادت کی غر ض سے ہوتا ہے اورعام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صبح کی عبادت میں زیادہ لطف اوررُوحانی کیف ہوتا ہے
|