|
.
(۱۱) عُنقاہوجانا یا ہونا۔
آدمی شروع ہی سے پرندوں سے دلچسپی لیتا رہا ہے یہاں تک کہ ُاس نے کہانیاں اورداستانیں گھڑکر اس طرح کے کردار پرندوں میں بھی پیدا کردےئے جو واقع نہیں ہیں مگر اپنے طورپر عجیب وغریب کردارہیں جیسے رخ اورسیمر پرندے جو بہت بڑے ہیں اورجن کے بارے میں خیال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پنجوں میں ہاتھیوں کو لیکر اڑجاتے ہیں ایسے پرندے بھی فرض کئے گئے جوگیت گاتے ہیں اوراُن سے گیت اُن کے اپنے وجودکو جلاکر بھسم کردیتے ہیں اورپھروہ اپنی راکھ سے جنم لیتے ہیں۔ ’’قفس‘‘ اسی طرح کا ایک فرضی پرندہ ہے ’’ہما ‘‘کے نام سے ایک ایسے فرضی پرندہ کا تصور بھی ہوجاتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم مصری شہنشاہ (فرعون) اپنے سرپر ایک پرندہ نشان بنائے رکھتے ہیں غالباً ہمااب بھی اس کا تصوّر ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ لڑکوں کانام ہمایوں اورلڑکیوں کے نام ظلِ ہما رکھے جاتے ہیں’’ عنقا‘‘ایک ایسا پرندہ ہے جس کا تصورچین میں خاص طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ ہے بھی اورنہیں بھی اسی لئے جوچیز غائب ہوجاتی ہے اس کو محاورے کے طورپر کہتے ہیں وہ توعنقا ہورہی ہے یعنی کہیں ملتی ہی نہیں۔
(۱۲) عیب جُوئی کرنا، عیب ڈھونڈنا، عیب لگانا۔
ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم آدمی کی خوبیاں نہیں دیکھتے اس کی نیکیوں پر نظرنہیں کرتے بلکہ خواہ مخواہ بھی اس کے کردار میں طرح طرح کے عیب نکالتے ہیں۔ اورکوشش یہ رہتی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو عیب تلاش کئے جائیں یا عیب تراشے جائیں اورجوخرابیاں یا خامیاں کسی میں نہ ہوں وہ کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈکرنکالی جائیں یہ ہمارے معاشرے کاوہ غیرانسانی اورغیرتہذیبی رویہ ہے جو بہت عام ہے اورغالبؔ کے اس مصرعہ میں اسی سچائی کی طرف اشارہ ہے۔ ہوتی آئی ہے‘ کہ اچھوّں کو بُرا کہتے ہیں سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان اوراپنے ادب کا مطالعہِاس نقطہ سے کیاہی نہیں کہ ہماری کن کِن باتوں کی طرف ہمارے اشعار ہماری کہاوتوں اورہمارے محاوروں میں موجودہیں۔
(۱۳) عیش کے بندے عیشی بندے (عیش اُڑانے والے)۔
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ عیش پسند ہویا نہ ہومگر آرام پسند ضرور ہوتے ہیں اسی لئے ہمارے ہاں آرام کرنے یا ہونے پر بہت محاورے موجود ہیں اوراسی طرح عیش کرنے پر بھی کہ وہ توعیش کررہے ہیں۔ عیش اُڑارہے ہیں ایسے ہی لوگ جوہرحالت میں مطمئن رہتے ہیں اورخوش نظر آتے ہیں وہ’’ عیشی بندے‘‘ کہلاتے ہیں یعنی انہیں توہرحالت میں عیش کرنا ہے کچھ ہویا نہ ہو۔
(۱۴)عین غین ہونا، یا عین میں ہونا۔
یہ دوالگ الگ محاورے ہیں اوران کے معنی ہیں اِدھر ُادھر کی بیکارکی باتیں سوچنا اورذراسی دیر میں اپنی توجہ بدل دینا غیرسنجیدہ لوگوں کا یہی رویہ ہوتا ہے ’’عین‘‘ آنکھ کوکہتے ہیں اور’’غین‘‘کے معنی ہیں غائب ہوجانا ذراسی دیر میں توجہ بدل جانا اورآدمی کا موجود ہوتے ہوئے ذہنی طور پر غائب ہوجانا عین غین ہونا کہلاتاہے۔عین میں ہونا جوں کا توں بالکل وہی اور ُاسی جیسا ہونا عین میں ہوناہے وہ توعین میں ایسا ہی تھا اوراسی طرح لگ رہا تھا یہ بھی ہی کے معنی بھی یہی ہیں یعنی بالکل اُس جیسا سی سے یہ عین میں کا محاورہ بھی بناہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے عربی الفاظ کو اپنے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اوراپنی زبان میں صرف عربی لفظ داخل نہیں کئے محاورہ بھی تراشے ہیں۔
٭٭٭
|