|
.
اورخیال رکھا جاتا ہے کہ اگرایسی کوئی صورت ہو توپاکی حاصل کرنے کے لئے غسل
کرلیا جائے۔ (۱۰) غش ہونا، یاغش کھاکر گِرجانا۔ یہ کمزوری میں ہوسکتا ہے
اورکچھ خاص حالات میں جیسے خون کو دیکھ کر طبیعت پرغشی طاری ہونا یا کسی خوفناک
منظر سے غیرمعمولی تاثرلینا یاپھر کسی کے حُسن وجمال پر بے طرح عاشق ہوجانا۔اوراپنے
ہوش وحواس میں نارہنا جسے غش ہونا کہتے ہیں اورکمزوری کے باعث ہوش کھودینا غش آجانا
کہلاتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں غشی طاری ہونا۔ (۱۱) غصّہ پینا، غصّہ تھوک دینا
،غصّہ دلانا، غصہ آنا۔ ہماری انسانی عادتوں فطری کمزوریوں اورسماجی رویوں میں
جوبات بطورِ خاص شامل رہتی ہے وہ بغض ونفرت حقارت بھی ہے اوراُن کے پس منظر میں
موجودہے غصہ میں آدمی کو اپنے اوپر قابونہیں رہتا وہ شدیدجذباتی عمل اورردِ عمل کا
شکاررہتا ہے اُس کی نفسیات میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ غصّہ میں آدمی
خودکشی بھی کرلیتا ہے اوردوسرے کوقتل بھی کردیتا ہے۔ ’’جگر‘‘چبانا اورخون پینے
کا عمل بھی غصّہ ہی کا اظہار ہے اسی لئے ہمارے یہاں غصہ کو کم کرنے کے لئے یہ بھی
کہا جاتا ہے ذرا غم کھا ٹھنڈا پانی پی غصّہ تھام یہ محاورہ گلزارِ نسیم میں غصّہ
تھامنے سے متعلق شعر اس طرح آیا ہے۔ تھمتا نہیں غصہ تھا منے سے چل دُور ہو
میرے سامنے سے اسی میں اس طرح کے محاورے شامل ہیں غصہ تھوک دو یا غصہ پی جاؤ
اگردیکھا جائے توان محاوروں میں جذبات کے لحاظ سے غصّہ کا آنا بھی شامل ہے۔
چرنجی لال نے غصہ میں بُھوت بن جانا محاورہ بھی دیا ہے مگراس کا استعمال عام نہیں
ہے ہاں سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ شدید غصّہ کی حالت میں آدمی آدمی نہیں رہتا
بھوت بنا ہوا نظر آتا ہے۔ (۱۲)غضب آنا یا ٹوٹنا ، غضب توڑنا، غضب میں پڑنا، غضب
ہونا۔ غضب غیرمعمولی غصّہ کو بھی کہتے ہیں اورغضناک ہونا بولتے ہیں اورجب کوئی
بیحدپریشان کُن اور تباہ کرنے والی صورت پیش آتی ہے تواس کو قہرنازل ہونا یا غضب
آنا کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ دلی میںنادرشاہ درانی کیا آیا یہ کہئے کہ غضب آگیا
ویسے بھی غضب کا استعمال اُردوزبان میں غیرمعمولی صورت حال کے لئے بہت ہوتا ہے
کیاغضب کاگانا تھا کیا غضب کی آواز پائی ہے یاکیاغضب کاحافظہ ہے۔ غضب توڑنایاغضب
ٹوٹنا یا غضب ڈھانا یہ بہت عام ہیں اقبالؔ نے اپنے شعرمیں غضب کیا محاورہ استعمال
کیاہے۔ تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا میںہی توایک راز تھا
سینہ کا ئنات میں (۱۳) غُلام کرنا یا غُلام بنانا۔ غلام کا لفظ انسان یا
گروہِ انسانی کے لئے توہین آمیز ہے اوردوسری قوموں کی ماتحتی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
انسانوں کو غلام بناکر خریدوفروخت کرنے کا رواج بھی رہا ہے اورصدیوں تک رہا ہے
زرخرید غلام ہونا بھی اسی کی طرف ایک اشارہ ہے حضرت یوسف ؑبھی غلام بنائے گئے
اورمصر کے بازار میں بیچے گئے تھے غلام بناکر رکھنا کسی شخص کو نوکروں سے بدتردرجہ
دینا ہے اوریہ کہنا وہ توان کی مرضی کا غلام ہے اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے
|