|
.
مگر اس میں اظہارطنزکے طورپرکیا جاتا ہے۔ فرشتے کے ’’پر‘‘کا تصورکرتے ہوئے ایک دو محاورہ اوربھی ہیں مثلاً وہاں فرشتہ پرنہیں مارسکتا یعنی اتنی پردہ داری یا پابندی اورپہرہ داری ہے کہ فرشتہ بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے۔اسی سے ملتا جلتا یہ محاورہ بھی ہے کہ وہاں جانے میں توفرشتوں کے پر جلتے ہیں اورغالباً اس محاورہ کی بنیاد یہ خیال ہے جو فارسی کے ایک شعرمیں آیا ہے کہ معراج کی شب میں جبرائیلؑ حضوراکرم ؐکے ساتھ تھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک ساتھ رہے لیکن یہاں پہنچ کر انہوںنے اپنا ساتھ اس لئے نہیں دیا کہ اس سے آگے جانا ان کے لئے سوئے ادب تھا۔ اگر یکسرے مُوئے برتر پَرم فروغ تجلی بسوزد پرم اگرمیں ایک سرِمُوبھی اورآگے بڑھوں توتجلیات کا فروغ میرے پاؤں کوجلا دے گا یہاں صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورے اپنی بنیادی فکرکے اعتبارسے ہندوستان سے باہر کی تہذیبی فضاء اورعقائد و اعمال سے نسبت رکھتے ہیں کہ جس طرح اُردُوزبان میں الفاظ اورتصورات میںبین ایشائی عناصرکوجمع کیا ہے اسی طرح اُن کا عکس محاورات میں بھی آتا ہے ۔ نیزیہ کہ محاورہ تجربہ سے بھی پیدا ہوتا ہے ہمارے سماجی شعور سے اورتہذیبی روایتوں سے بھی اورجس طرح شعرلطیفے اورفنونِ لطیفہ کے مختلف نمونے ہیں جوہمیں تاریخ کے مختلف مرحلوں سلسلوں اورجہتوں سے واقف کرتے ہیں۔
(۱۱) فر ش سے عرش تک۔
یہ فارسی ترکیب ہے اورایک طرح کے محاوراتی معنی رکھتی ہے فرش زمین اورعرش آسمان درمیان میں وہ تمام مادی دنیا یا مختلف عناصر سے متعلق وہ ماحول جو خلاء میں موجود ہے ۔ ایسی صورت میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فرش سے عرش تک کہ تمام اَسرار منکشف ہوگئے تواُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اِس دنیا میں افق سے تابہ افق جوچکھ ہے و ہ ایک بھیدوبھری دنیا ہے۔ اوروہ سب بھید منکشف ہوگئے ہیں اکثر صوفیاء کے ذکر میں اِس صورت حال کی طرف اشارہ کیا جاتاہے ویسے یہ کوئی محاورہ نہیں ہے بیان کا ایک خاص شاعرانہ اسلوب اورصوفیانہ طرزِ ادا ہے۔
(۱۲) فرشی حقّٰہ۔
یہ بھی محاورہ نہیں ہے بلکہ ایک اصطلاح ہے ایسے حقے کو فرشی حقہ کہتے ہیں جس کا وہ حصّٰہ جس میں پانی بھرارہتا ہے فرش پرٹِکارہتا ہے اِس کے مقابلہ میں پیچواں ایک دوسری طرح کا حقہ ہوتاہے جس کی نالی بہت لمبی ہوتی ہے اوربیچ دربیچ رہتی ہے اس کو فرش سے اُٹھاکر محفل میں اِدھر اُدھر گھمایا بھی جاسکتا ہے۔ یہی صورت فرشی سلام کی بھی ہے کہ بہت جھک کریا زمین کوچھُوکر جوسلام پیش کیا جاتا ہے اُسے فرشی سلام کہتے ہیں یہ بھی محاورے کے بجائے ایک اصطلاح ہے۔ معاشرتی اورتہذیبی اِصطلاح ہے۔
(۱۳) فرعونِ بے سمان۔
مسلمانوں میں بعض ایسے کرداروں کا بھی روایتی طورپر بطورِمحاورہ یاکسی شعرمیںبطورِ تلمیح استعمال ہوتا رہتا ہے اُن میںسے افلاطون ایک کردار ہے جواپنے زمانے کا بہت بڑا فلسفی طبیب اورماہرِ اخلاقیات تھا یہ’’ ارسطو‘‘ کا اُستاد بھی تھا اسی لئے علمی کتابوں میں اِس کا ذکر بطورِ فلسفی اورحکیم آتا ہے ایک اردو محاورے میں جب یہ کہاجاتا ہے کہ وہ بڑا افلاطون بنا ہوا ہے یعنی اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتا ہے اورکسی کو خاطر میں نہیں لاتاکسی کی بات نہیں مانتا یہی صورت ’’فرعون‘‘ کے ساتھ ہے۔ وہ مِصرکابادشاہ تھا اورمِصر کے بادشاہ ہوں کو اُن کے لقب کے طورپر فرعون کہا جاتاتھا ہم فرعون کا ذکرحضرت موسی کے زمانے میںجو فرعون تھا اُس کے حوالے سے کرتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ وہ توبہت بڑا بادشاہ تھا اس کے پاس سازوسامان بہت تھا۔ لاؤ لشکر بہت تھا
|