|
ردیف ’’ق‘‘
(۱) قابو چڑھنا، قابومیں آنا ، قابو میں کرنا۔
یہ سب محاورات قریب قریب ایک ہی معنی میں آتے ہیں اورفارسی سے ماخوذ ہیں فارسی میں ’’قابو یا فتن‘‘ یا قابو حاصل کردن یا شدن کہتے ہیں اورمطلب ہوتا ہے تسلّط پانا یہ اچھے خاصے وسیع دائرہ میں اور وسیع ترمفہوم کے ساتھ استعمال ہوتاہے۔ بڑی مشکل سے حالات پر قابوپایا سوتدبریں کیں تب وہ قابوچڑھا وغیرہ وغیرہ اُس کے مقابلہ کا محاورہ ہے قابو ہونا ہے چاہیے غصّہ کے باعث ہو چاہے غم کے چاہے کمزوری کے دل کے ساتھ بھی بے قابو کالفظ آتا ہے جیسے میرادل بے قابو ہوگیا یہ محاورے سماجی رشتوں اورجذباتی اُتار چڑھاؤ کو ظاہرکرتے ہیں اوریہ کہ آدمی اپنے جذبے اپنے احساس اورذہنی عمل ردِعمل کو کس طرح پیش کرتا ہے۔
(۲) قارورہ ملنا، یا قارورہ دیکھنا۔
یہ محاورہ ایک طبی اِصطلاح بھی ہے یعنی بیماری کے عالم میں بیمار کے اپنے پیشاب یا قارورے کواِس اعتبار سے دیکھنا کہ اس کا معائنہ کرنا اوریہ دیکھنا کہ بیماری کیا ہے کتنی ہے اب یہ باتیں مشین کے ذریعہ ہوتی ہیں پہلے طبیب کی نظر ہی کام کرجاتی تھی ۔ وہاں سے آگے بڑھ کر یہ محاورہ میں آئی تویہ محاورہ بناکہ ان کا قارورہ نہیں ملتا یعنی مزاج نہیں ملتا طبیعتیں نہیں ملتیں ۔ اِس سے ایک بار پھریہ بات ذہن کی سطح پر ابھرتی ہے کہ ایک فن کے محاورے لفظیات زبان کے مختلف استعمال اورموقع ومحل کے لحاظ سے کس حدتک بدلتی ہے۔
(۳) قاضی ، قاضی الحاجات قاضی قِدوہ ، قاضی گِلہ نہ کرسکا۔
’’قاضی‘‘ ایک ایسے آفیسر کوکہتے ہیں جونکاح خوانی کا رجسٹررکھتا ہے اورنکاح پڑھاتا ہے اوراس کا ریکارڈ اُس کے پاس رہتا ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے دورِحکومت میں قاضی کوکچھ خاص طرح کے قانونی اختیارات بھی حاصل تھے اورکچھ مقدمات کا فیصلہ بھی اس کے اختیارات کی حدود میں ہوتا تھا ایک بڑا قاضی ہوتا تھا جوقاضی القضاۃ کہلاتا تھا محاورے قاضیوں سے متعلق عجیب وغریب ہیں مثلاً قاضی قدوہ ہونا ،جونپور کا قاضی ہونا یہ روایتا مشہور ہوگئے اوراب نمونے کے طورپر کہا جاتا ہے اور اُس میں طنز شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑے خاندان اوربہت بڑی چیز سمجھتا ہے ۔ یہی معاملہ جونپور کے قاضی کا ہے کہ وہ اپنی مکاری میں مشہورہوگیا اسی طرح یہ کہاوت کہ جب میا ںبیوی راضی توکیا کرے گا قاضی اسی طرح قاضی توکوئی گلہ نہیں کرتا وہ تونکاح پڑھا دیتا ہے باقی معاملات سے اُسے کیا واسطہ قاضی کا پیادہ معمولی سپاہی کہ وہ کونسا قاضی کا پیادہ ہے یعنی قاضی کے پیادے کی بھی ایک زمانے میں بڑی اہمیت ہوتی تھی آخرتووہ قاضی کا بھیجا ہوا شہنہ ادنی درجہ کا سپاہی ہوتا تھا۔ اسی طرح قاضی ’’ماری حلال‘‘ یعنی کوئی چیز ذبح کئے بغیر مرجائے تووہ جائز نہیں رہ جاتی مگر قاضی اگرکہہ دے تووہ بھی جائز ہوگئی یہ سماج کی طرف سے قاضی کے کردار پر پھبتیاں ہیں۔
|