|
.
’’بھوج پتر‘‘ مٹی کی تختیاں یا لکڑی کی تختیاں بھی تحریر کے لئے کام آتی رہیں کاغذ کی ایجادسے پہلے انہی تختیوں اور’’بھوج پتروں‘‘ پہ لکھا جاتا تھا جن کو آج بھی میوزیم میںدیکھا جاسکتا ہے تحریرقلم کے ہی ذریعہ ممکن ہے اورتصویر بھی قلم بیشک الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں قلم کے بہت سے محاوراتی الفاظ اورکلمات ہیں جیسے قلم اٹھانے کی ضرورت قلم برداشتہ لکھنا قلم چلانا قلم توڑدینا یا قلم کی زبان میں کہنا اس سے ہم قلم کی تہذیبی تاریخ کو بھی جان سکتے ہیں۔ اورپڑھنے لکھنے کے معاملہ میں قلم کی اہمیت کوبھی اورتحریر کی خوبی اورخوبصورتی کا ذکربھی قلم کے رشتہ سے کیا جاتا ہے جیسے خوش قلم مرصع رقم جس کے معنی ہوتے ہیں خوش قطعی اورخوبصورت تحریر کو کہتے ہیں۔
(۲۵) قل ہو اللہ پڑھنا، قل ہونا۔
’’قل ‘‘قرآن پاک کا لفظ ہے اور’’قل ہونا‘‘ یا قل ہو اللہ پڑھا جانا اُردو کے محاورات میں سے ہے۔ قل ہونا دراصل قل پڑھا جانا ہی اورقل پڑھے جانے کے معنی ہیں فاتحہ کی دعائے خیر۔ ذوق نے اپنے ایک مصرعہ میں کہا ہے۔ لا سا قیاپیالہ تے توبہ کا قُل ہوا یعنی توبہ ختم ہوئی اورہم نے توبہ ہی کا ارادہ ترک کردیا اب توپینا پلاناہی رہ گیا آنتوں کا قل ہو اللہ پڑھنا بھوگ لگنا ہے چونکہ بھوک کے وقت پیٹ میں آنتیں ایک خاص طرح کی حرکت کرتی ہیں ان کی آواز کو’ ’قراقر ‘‘کہتے ہیں اسی کو قل ہوا اللہ پڑھنا کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلم معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں اوراُس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم نے فارسی وعربی سے بھی اپنے خاص ماحول کے مطابق محاورات اخذ کئے ہیں۔
(۲۶) قہر توڑنا، قہر کی نظر دیکھنا، قہر نازل ہونا، قہرٹوٹ پڑنا۔
قہر غصّہ کوکہا جاتا ہے اوریہ لفظ مہر کے مقابلہ میں آتا ہے مہر محبت کوکہتے ہیں مسلمانوں میں لڑکیوں کا بھی اورلڑکوں کانام مہر پر رکھا جاتا ہے قہر غضب ناک ہونا ہے اسی لئے جب کوئی غیر معمولی مصیبت آتی ہے تواس کوقہر الٰہی یا قہر آسمانی کہتے ہیں کوستے وقت بھی کہا جاتا ہے کہ تم پر قہرالہٰی نازل ہو یا خدا کا قہر ٹوٹ پڑے۔ ظاہر ہے آندھی طوفان سیلاب زلزلہ اولے برسناسب ہی نقصان اورتکلیف کا باعث ہوتے ہیں اسی کو قہر الہٰی یا قہرِ آسمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(۲۷) قیامت آنا، قیامت اٹھانا، قیامت توڑنا، قیامت ہونا ، قیامت کا منظر ، قیامت کی گھڑی۔
قیامت مسلمانوں کے عقائدکا ایک اہم جُزہے جس کو حشربرپا ہونا کہتے ہیں قرآن نے اس کو ساعت بھی کہا ہے اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ گھڑی کب آئے گی اس کا علم سوائے خدا کے کسی کونہیں۔ قیامت کے تصوّرکے ساتھ ایک طرف تویہ خیال وابستہ ہے کہ قیامت آنے پرہرشے تہس نہس ہوجائے گی پہاڑروئی کے گالوں کی طرح اڑجائیں گے زمین آسمان تہہ وبالا ہوجائیں گے اسی کے ساتھ مسلمانوں میں یہ تصوربھی پایا جاتا ہے کہ قیامت کا دن ایک لاکھ برس کا ہوگا۔ اوراُس دن تمام انسانوں کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا انہیں سزا اورجزا دی جائے گی اسی لئے انگریزی میں اسے Day of judejmentکہتے ہیں یعنی یوم الحساب جب کوئی بات کسی انسانی گروہ طبقہ قوم یا ملت کی نفسیات میں داخل ہوجاتی ہے تواس کو محاوروں میں ڈھال لیا جاتا ہے مثلاً قیامت آنا، مصیبت نازل ہونا، قیامت گذرنا پریشانیوں میں بے طرح مبتلا ہونا اسی طرح قیامت برپا ہونا ہربات کو اُلٹ پلٹ ہوجانا اس معنی میں قیامت کا تصوراور اس سے متعلق دوسری کسی زبان میں کم ہی نظر آتے ہیں ۔ فارسی میں ایک دومحاورے مل جائیں تودل مل جائیں یہ ہمارے اپنے معاشرے کی بات ہے اوراس سے تہذیب ومعاشرت کے مزاج کو سمجھنے میں مددملتی ہے۔
|