|
.
(۲۸) قید لگانا ،قیدمیںرکھنا، قیدمیں عائد کرنا
’’قید‘‘ ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حوالہ رہا ہے اورآج بھی ہے ہم دوسروں کو کسی بھی وجہ سے اپنا پابند اورمحکوم بناکر رکھنا چاہتے ہیں مثلا غلام بنانا، باندی بنانا ، نوکر کے آگے چاکر رکھنا ایک ایک بات سے انسان کی امتیاز پسندی ظاہرہوتی ہے صدیوں تک محکوموں کے بارے میں جوقاعدہ قانون بناتے رہے وہ بھی اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آدمی مجرموں کو بھی قید میں ڈالتا ہے قید میں رکھتا ہے اورسزا کے طورپر اُن سے بدسلوکی کرتا ہے یہ بات اگرایک حدتک جائز بھی ہوسکتی ہے تواس کی اپنی کچھ اخلاقی حدیں ضرورہونی چاہئیں لیکن وہ حدیں باقی نہیں رہیں اوراس طرح کے تصورات عام ہوگئے کہ اس نے قید میں ڈال رکھا ہے قیدی بنارکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے سماج کے تاریخی اورتہذیبی رویوں کا بھی پتہ چلتا ہے اورقاعدہ قانون کی روش پربھی روشنی پڑتی ہے۔
٭٭٭
|