|
.
(۴) اَبلا پری، اَبلاّ رانی ہونا۔
بہت خوب صورت ہونا۔ اصل میں رانی اور راجہ کا لفظ مرد اور عورت کے شخصی امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھولوں میں بھی ایک پھول دن کا راجہ ہوتا ہے اور ایک رات کی رانی ۔ اس سے بھی پھولوں میں اُن کا ممتاز ہونا ظاہر ہے۔"ابلا" لڑکی کو کہتے ہیں اور جسے بہت خوب صورت لڑکی ظاہر کرنا ہوتا ہے یا پھر سمجھا جاتا ہے، اِسے "اَبلا پری" کہا جاتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں پریوں کا تصوّر نہیں تھا۔ اسی لیے "ابلاّ رانی" کہا جاتاتھا۔ جب فارسی کے ذریعہ "پری" کا تصوّر آیا تو "ابلاّ پری" کہا جانے لگا۔ بہر حال، "ابلاّ پری" ہو یا "ابلاّ رانی"،حُسن کا ایک آئیڈیل تصوّر ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لفظی طور پر ہم نے فارسی سے جو الفاظ لیے ہیں، ان کا ہماری تہذیب سے بھی ایک رشتہ ہے۔حسین عورت کو ہم "پری چہرہ" بھی کہتے ہیں، چاہے دیووں، جن، بھوتوں اور پریوں کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ حضرت امیر خسرو کا مشہور فارسی شعر ہے پری پیکر ، نگارِ سرو قدے، لالہ رُخسارے سراپہ آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم یعنی وہ جو پری پیکر ہے، حسین اور خوب صورت ہے، سُرو قد ہے ، لالہ رُخسار ہے اور سر تا پا آفتِ دل ہے اور میں نے رات اسے اس کی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔اس شعر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں "ابلاّ رانی" یا "ابلاّ پری" کی وہ خوبیاں نظر آتی ہیں جو ایرانی تصوّرِحسن کو پیش کرتی ہیں اور ہندوستان کی ایک حسین عورت کی خوب صورتیاں اس میں جھلکتی ہیں۔"اَبلا رانی" سے "اَبلاّ پرَی" تک محاورہ کا یہ شعر ہماری تہذیبی تاریخ کی روشن پرچھائیوںکی ایک متحرک صورت ہے۔
(۵) آبِ حیات ہونا۔
آبِ حیات کا تصور قوموں میں بہت قدیم ہے۔ یعنی ایک ایسے چشمہ کا پانی جس کو پینے سے پھر آدمی زندہ رہتا ہے۔ اُردو واور فارسی ادب میں حضرتِ خضر کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ چشمہّ آبِ حیات کے نگراں ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ زندہ رہیںگے۔حضرتِ خضر کا لباس ۔ ۔"سبز" ہے اور وہ دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیںکہ قدیم زمانہ میں جب باقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں، دریاؤں کے کنارے کنارے سفر کیا جاتا تھا۔ اور اس طرح گویا دریا ہماری رہنمائی کرتے تھے۔یہیں سے خضر کی رہنمائی کا تصور بھی پیدا ہوا ہے۔ علم کو پانی سے مُشابہت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم علم کا سمندر یعنی بحرالعلم کہتے ہیںجسے ہندی میں "ودیا ساگر"کہا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ علم پانی ہے ، پانی زندگی ہے اور پانی نہ ہو توپھر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اِن باتوں کو آبِ حیات کی صُورت میں ایک علامت کے طور پر مانا گیا ہے۔ حضرتِ خضر کا علم بھی بہت بڑا ہے جس کے لیے اقبالؔ نے کہا ہے: علمِ موسیٰ بھی ہے جس کے سامنے حیرت فروش قرآن میں بھی حضرتِخضر اور حضرتِ موسیٰ سے متعلق روایت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ لیکن خضر کا نام نہیں ہے۔اردو ادب میں اور مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جو پانی پیتے تھے اُس کو بھی آبِ حیات کہا جاتا تھا۔ ان سب باتوںکے پیشِ نظر جب اردو میں بطورِ محاورہ آبِ حیات ہونا کہا جاتا ہے تو اس سے مُراد ہوتی ہے کہ یہ بے حد مفید ہے، زندگی بڑھاتا ہے اور صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ محاوروں نے ہماری تہذیبی روایت کو محفوظ کیا ہے اور عوام تک پہنچایا ہے۔۔
|