|
.
اورجب شیریا ہاتھی وہاں سے گذرتا ہے تواس کنوؤیں یا گڈھ میںجاگرتا ہے اورپھر اس کو پلے ہوئے شیروں یا ہاتھیوں کی مددسے پکڑا جاتا ہے۔ کنوؤں میں بانس ڈالنا ، تلاش کرنے کوکہتے ہیں کہ تمہاری تلاش میں توہم نے کنویں میں بانس ڈالوادےئے کنویں جھاکنا یا جُھکانا بھی تلاش کرنا ہے مگراچھے معنی میں نہیں ہے اب کنویں باقی نہیںہیں بیشتر کنویں بند ہوچکے ہیں دہلی میں لال کنواں، ڈھولا کنواں اندراکنواں اس کی مثالیں ہیں پتھروالا بھی کبھی کنواں ہی تھا کھاری باولی اورحضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ سے متعلق باولی بھی بڑے کنویں ہیں کھاری باولی اب نہیں ہے مگربستی حضرت نظام کی باولی موجودہے اورگذرے زمانے کی یاددلاتی ہے۔
(۳۷) کوٹھے والیاں۔
کوٹھاایک خاص معنی میں بالا خانہ کوکہتے ہیں اوربالاخانہ بھی اپنا ایک اصطلاحی مفہوم رکھتا ہے۔یعنی طوائف کی رہائش گاہ طوائف گانے والی عورت کوکہتے تھے۔ جس کو رقص کافن بھی آتا تھا۔ گانے بجائے اوررقص کے ساتھ اپنے موسیقی کے فن کو پیش کرنے کا کام ڈومیناں بھی کرتی تھیں۔ مگروہ عورتوںکی محفلوں میں گاتی بجاتی تھیں۔ ویسے ڈومنی کا اصطلاحی لفظ طوائف کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا درگاہ قلی خان سرسالار جنگ اول نے عہد محمد شاہی میں جودہلی کا سفرکیا تھا اس کی روداد مرقع دہلی نام کی کتاب میںملتی ہے انہوںنے دہلی کی اس وقت کی طوائفوں کوڈومنی کہا۔ طوائفیں بڑی مالدار اورڈیرہ دار بھی ہوتی تھیں۔ ڈیرہ دار طوائفیں وہ طوائفیں کہلاتی تھیں جن کے پاس نوعمرلڑکیاں بھی ہوتی تھیںاوران کے لئے رقص وسرود کاکام بھی کرتی تھیں اُن کو نوچنا کہتے تھے انگریز جب ہندوستان میں آئے اورانہوںنے طوائفوں سے ذہنی رابطہ پیدا کیا تووہ انہیں لال بی بی کہہ کے پکارتے تھے۔ طوائف کے کوٹھے پران کے درجہ کے مطابق اُمراء اورصاحب ثروت لوگ جاتے تھے۔ بادشاہوں کی بھی طوائفیں محبوب شخصیتیں ہوتی تھیں طوائف کے کوٹھے کی تہذیب اُردوشاعری اورادبی شعور پر بہت اثرانداز ہوئی ہے داغ ؔکی شاعری میں تواس کی بے طرح جھلکیاں ملتی ہیں عام زبان میں طوائف کوکوٹھے والی کہتے ہیں۔
(۳۸) کوچہ گردی کرنا۔
کوچہ گلی محلے کو کہتے ہیں اورطوائف کے کوٹھے کو بھی کوچہ کہا جاتا ہے اسی لئے جب ہم کوچہ گردی ایک خاص مفہوم کو ذہن میں رکھ کر کہتے ہیں تواس سے مراد طوائف کے کوٹھے پر آنا جانا ہے۔ اسی لئے اقبالؔ نے فرنگیوں کے لئے کوچہ گرد کالفظ استعمال کیا گلی کوچہ دہلی کی زبان میں عام استعمال میں آتاہے۔
(۳۹) کودوں دلانا ، کودوں۔
مشرقی یوپی میں ایک بہت معمولی قسم کا اناج ہوتا ہے اس کو کودوں کہتے ہیں پہلے زمانہ میں پیسے کی کمی تھی اس لئے چیزوں کے بدلہ میں اناج دیا جاتاتھا دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک یہ سسٹم کافی رائج تھا اوراب بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے کودوں بہت کم درجہ کا اناج ہے اس لئے کودوں دیکرپڑھنا اس کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے توکچھ بھی نہیں دیا مفت پڑھے ہیں ۔ یہ وہی بات ہوئی جس کا اظہار ہم کوڑیوں کے حوالہ سے بھی کرتے ہیں کوڑیوں کے مول خریدنا ، یعنی جوچیز بہت سستی مل جائے اُسے کوڑیوں کے مول سے نسبت دی جاتی ہے کوڑیاں بھی سکے یا پیسے ٹکے کے طورپر چلتی تھیں۔ اوردوسری جنگِ عظم تک چلتی رہیں۔ یہ محاورے اس دورزندگی کی یاددلاتے ہیں جب پیسے پاس ہونا بڑی بات تھی اوراسی سے یہ محاورہ بھی نکلا ہے پیسہ دیکھا ہے یا پیسے کامنہ نہ دیکھو پیسہ پانی کی طرح نہ بہاؤ یا پیسہ توہاتھ کا میل ہے ۔ پیسے پیسے کو محتاج ہو نابھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے اوراس سے ہماری سماجی حیثیت کا بھی تعین ہوتا ہے اورسماج میں پیسے کی اہمیت کابھی ۔
|