|
.
(۶) آبنوس کا کُندا ہونا۔
یہ ایک عجیب محاور ہ ہے۔ لکڑیوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں ، مثلاًتُون کی لکڑی کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ صندل (چندن) کی لکڑی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور آبنوس کا سیاہ۔سیاہ ہمارے ہاںخوبصورت اور پُر کشش رنگ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے دیووں اور بھوتوں کو یہ رنگ دیا جاتا ہے اور سیاہ کہہ کر بھی جِن بھوت مُراد لیا جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بالوں کا رنگ بھی سیاہ ہوتا ہے۔ بھَوں کا بھی اورآنکھوں کی پُتلیوں کا اور تِل کا بھی رنگ کالا ہوتا ہے۔ اور یہ سب حسن و کشش کی علامت ہیں۔ کم از کم ہند ایرانی تہذیب میں ایسا ہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاہ رنگ سے نفرت کے اظہار کی وجہ کیا ہے۔ جب کہ شیعہ عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں سیاہ رنگ مقدّس رنگ ہوتا ہے اور عبّاسیوں کی سلطنت (خلفائے بنو عبّاس) میں سیاہ رنگ اُن کی اپنی سلطنت کا رنگ تھا۔ اُن حقائق کی روشنی میں سیاہ رنگ سے نفرت دراصل آریائی تہذیب کی دین ہے کہ وہ درا وِڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کی تہذیب اور علمی کارگزاریوںکو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو بھنگی، چمار اور دوسرے پیشوں سے وابستہ کردیا۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ سے نفرت شروع کردی۔اور اُس کا اثر یہ ہے کہ آبنوس کا کُندا کالا کلوٹا کلموہا ہمارے ہاں بُرے الفاظ ہوگئے۔ آبنوس وہ لکڑی ہے جو صرف دراوِڑوںکے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہیں ۔ اُس میں ہندوستانی تہذیب ، ہندوستانی فکر اور اُن فکری تعصبات کی جھلک بھی ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا رشتہ رہے ہیں۔
(۷) اَبجد خواں ہونا۔
حروف کو لکھنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم حروفِ تہجّی کی ترکیب کہتے ہیں یا اُردو والے "الف‘‘ ، ’’ب‘‘ ، ’’ت‘‘ کے سلسلے سے وابستہ کرتے ہیں۔ دوسرا وہ سلسلہ یا ترتیب ہے جن کو حروفِ ’’اَبجد‘‘ سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ابجد، ھوز،حُطّی، کلمن،سعُفص، قرشت، شنخز،۔ یہی وہ حروف کی ترتیب ہے جس میں اِن حروف کے اعداد مقرر کیے جاتے ہیں۔ ابجدی ترتیب مندرجہ ذیل ہے۔ ۱(۱) ب(۲) ج (۳) د(۴) ہ(۵) و (۶) ز(۷) ح (۸) ط (۹) ی (۱۰) ک (۲۰) ل(۳۰) م (۴۰) ن (۵۰) س (۶۰) ع( ۷۰ف(۸۰) ص(۹۰) ق(۱۰۰) ر(۲۰۰) ش(۳۰۰) ت (۴۰۰) ث(۵۰۰) خ(۶۰۰) ذ(۷۰۰) ض(۸۰۰) ظ(۹۰۰) غ(۱۰۰۰) نام یا تاریخ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اُس نام یا اُس تاریخ سے متعلق حروف کے اعداد لے لیتے ہیں۔ اور اُن کو جمع کرتے ہیں۔ حاصل جمع جو بھی عدد ہوتا ہے اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں، ایک ہجری ، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی ان کی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں۔
غرض کہ اُن حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے اَبجدی ترتیب کہتے ہیں۔ اس کے
برعکس ا ، ب، ت، ث، سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے ترتیبِ حروفِ ’’ہجا‘‘ کہا جاتا
ہے۔ یہاں محاورہ میں ’’ابجد خواں‘‘ کہا گیا ہے۔ اِس سے مراد صرف ا ، ب، ت ، ث لی
گئی ہے
|