|
.
(۲۵) گھنگرو بولنا۔
دہلی والوں کا خاص محاورہ ہے اوراس وقت کے لئے بولا جاتا ہے جب موت سے کچھ پہلے سانس خراب ہوجا تا ہے اوراس میں گھرگھراہٹ آجاتی ہے لفظ محاورہ میں کس طرح اپنے معنی بدلتے ہیں اس کا اندازہ گھنگرو بولنے سے ہوتا ہے۔ تشبیہہ ہو استعارہ محاورہ کنایہ گفتگو اور مفہوم کی ترسیل کے لئے ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں اس کو ہم محاوروں کے لفظیاتی استعمال میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
(۲۶) گھن لگ جانا۔
جس طرح کا کیڑا دیمک ہوتی ہے جوکتابوں کا غذوں اور لکڑیوں کو لگتی ہے اسی طرح کے کیڑے کی ایک اورنسل ہے جس کو گھن کہتے ہیں اوراناجوں کو لگتا ہے اورغذا کاضروری حصّہ کھاجاتا ہے اسی بات کو آگے بڑھاکر ذہن دل اوردماغ کے لئے بھی گھن لگنا استعمال کرتے ہیں یعنی وہ پہلی سی تیزی وطراری اورچمک دمک باقی نہ رہی۔
(۲۷) گھوڑی چڑھنا۔
گھوڑے پر سوار ہونا بہت سی قوموں کی تہذیبی ومعاشرتی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت رکھنے والی ایک صورت ہے ایک زمانہ میں گھوڑے کی سواری فوجی علامت کے لئے غیرمعمولی اہمیت رکھتی تھی اورایک سپاہی گھوڑامول لیکر کسی بھی رئیس جاگیر دار یا صاحب ریاست کے یہاں نوکرہوجاتا تھا سودا ؔکا ایک شعرہے۔ کہامیں حضرت سوداؔ سے کیوںڈالواں ڈول پھرے ہے جاکہیںنوکر ہولیکے گھوڑامول عام طورپر رئیسوں کے ہاںسواری کے گھوڑے رکھے جاتے تھے اورتحفہ کے طورپر بھی پیش کئے جاتے تھے تاریخ میں بعض گھوڑوں کے نام بھی دےئے گئے ہیں مثلا رستم کے گھوڑے کانام رخش تھا امام حسینؑ کے گھوڑے کودُلدل کہتے تھے اورمہارانہ پرتاپ کے گھوڑے کوچیتک اس سے ہماری تاریخی اورتہذیبی زندگی میں گھوڑے کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ جب بچہ کچھ بڑا ہوتا تھا توگھوڑی چڑھنے کی رسم ادا کی جاتی تھی یعنی پہلے پہل گھوڑی پر سوارہونا بطورِ تقریب منایا جاتا تھا دہلی میں آج بھی کہیں کہیں اس کا رواج ہے اس سے رسموں کی تہذیبی اہمیت کا اظہار ہوتا ہے ان کا تاریخی اورسماجی پس منظر سامنے آتا ہے اوریہ بھی کہ محاورے میں کس طرح تہذیب کی تاریخ کو اپنے اندر سمیٹا ہے اورزبان کا سماج سے رشتہ جوڑا ہے گھوڑے جوڑے سے شادی ہونا بھی محاورہ ہے اوراس سے مراد لین دین رسوم وآداب کے ساتھ شادی کرنا ہے۔ اگرمحاورے کو سرسری طورپرنہ لیا جائے تومحاورہ ہماری تہذیب وتاریخ کا سماجی زندگی اورمعاشرتی ماحول کا جیتا جاگتا عکس پیش کرتا ہے۔ گھوڑے کھولنا انتہائی کوشش کوکہتے ہیں۔
(۲۸) گھونگھٹ کھولنا، گھونگھٹ اٹھانا، گھونگھٹ رہنا، گھونگھٹ کی دیوار۔
ہندوستانی تہذیب میں عورتیں جب اپنی سسرال جاتی تھیں تودلہن کے چہرہ پر ایک لمبا سا خوبصورت دوپٹہ پڑارہتا تھا اس کے ایک پلو نقاب کے طورپر استعمال کیا جاتا تھا منہ دکھائی رسم کے موقع پر گھونگھٹ اٹھایا جاتا تھا دولہا جب اپنی دلہن کا چہرہ پہلی مرتبہ دیکھتا تھا تواسے گھونگھٹ اٹھانا کہتے تھے جن مردوں کا احترام ملحوظ ہوتا تھا ان کے سامنے ہمیشہ عورت گھونگھٹ نکالے رہتی تھی۔ اورجب گھونگھٹ باقی نہیں رہتا تھا تواس کے لئے کہتے تھے گھونگھٹ اٹھ گیا۔
|