|
.
۔مردے کے کفن دفن کا انتظام کرنا مٹی سنگوانا کہلاتا ہے جنازہ اٹھانے کو مٹی اُٹھانا کہتے ہیں عام طور پر اُردو پر اعتراض کرینوالے یہ تو کہتے ہیں کہ وہ گل وبلبل کی شاعری ہے اوراُس کو عاشقی کی باتیں ہیں اگراردو کو اس کے محاوروں اوراس کے روزمرہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تووہ یقینا یہاں کی عوامی اورعمومی زبان ہے اوراُس کے لفظوں کا ذخےّرہ عام زبان ہی سے آیا ہے۔
(۱۲) مجذوب کی بَڑ۔
اُلٹی سیدھی بکواس کرنا بے معنی اورلایعنی باتیں کرنا مجذوب کی بَڑکہلاتا ہے’’ مجذوب‘‘ کسی ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے ہوش وحواس میں خلل پڑگیا ہو ایسا ہی آدمی بے تکی اوربے ہنگم پن کی باتیں کرتا ہے۔
(۱۳) مُجرا کرنا۔
’’مُجرا ‘‘ بامعنی سلام آتا ہے اسی لئے عام زبان میں کہتے ہیں کہ ان سے ہمارا بھی سلام مجرا ہے طوائفوں کے یہاں مجرا رقص کی محفل کو کہتے ہیں یعنی آج ان کے یہاں مجرا ہے اس کا مطلب ہے کہ رقص وسرود کی محفل ہے درباری سلام کو بھی مجرا کہتے ہیں اورلکھنؤ والے سلام پیش کرنے کو مجرا بجالا نا کہتے ہیں یہ محاورہ بھی اِس اعتبار سے ہمارے تہذیبی روےّوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
(۱۴) مرچیں لگنا، مرچیں سی لگ جانا
کسی بات پر خفا ہونا اوربات بھی وہ جس میں اس کی اپنی کوئی کمزوری چھُپی ہوئی ہووہ سامنے آجائے تواس کو مرچیں لگنا کہتے ہیں کہ میری بات سے اس کے کیسے مرچیں لگیں یہ سماج کا ایک تبصرہ ہے کہ سچی بات کوئی سننا نہیں چاہتا۔
(۱۵) مَرد کی صورت نہ دیکھنا
جوعورت یا لڑکی انتہائی پاکیزہ کردار ہوتی ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے مرد کی صورت بھی نہیں دیکھی یہاں مرد سے مراد وہ شخص ہے جس سے جنس وجذبہ کا کوئی تعلق ہو ورنہ مرد توماں باپ بھی ہوتے ہیں۔
(۱۶) مُردوں کی ہڈیاں اکھیڑنا یا گڑے مردے اکھیڑنا
مرنے والوں سے متعلق ہمارا جوتہذیبی رویہ رہا ہے اس میں انہیں دعا درود سے یا دکرنا بھی ہے اوربعض ایسے محاورے بھی مردوں سے متعلق ہیں جوہمارے سماجی رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں مثلاً ایسی باتوں کو یاد کرنا جن میں بُرائی کے پہلو موجود ہوں گڑھے مُردے اکھاڑنا کہا جاتا ہے۔ اِس لئے کہ ہم اپنی معاشرتی کمزوریوں کا کوئی علاج تلاش نہیں کرپاتے اسی لئے یہ سوچتے ہیں کہ اُن باتوں کو بھُلا دیا جائے اوراُن پر خاک ڈالدی جائے اوراگر اُن کا کوئی ذکر کرتا ہے تویہ کہا جاتا ہے کہ وہ گڑے مُردے اکھیڑتا ہے یا مُردوں کی ہڈیاں اکھیڑتا ہے مقصد یہ ہوتا ہے کہ خوامخواہ کی باتیں نہ کی جائیں یا پھرتکلیف دینے والی باتوں کو یادنہ کیا جائے۔ ان محاورات سے ہماری سماجی زندگی کا عمل اورردِ عمل دونوں سامنے آتے ہیں۔
(۱۷) مُردے کا مال۔
ہمارے سماجی عمل کا ایک بہت ہی گھِناونا عمل یہ ہے کہ ہم مُردے کا مال کواُس کی زمین وجائداد کو کسی نہ کسی بہانہ لوٹ لیتے ہیں اورجوقوم فریب ودغا دھوکہ یا زبردستی کرکے زندوں کو اُن کے مال سے محروم کردیتے ہیں تومُردوں کے ساتھ ہمارا سلوک کیا ہوگا اسی لئے لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں بیوہ کا حق چھین لیتے ہیں یہی مُردے کا مال کہلاتا ہے اورجب کوئی آدمی ’’دیکھتی آنکھوں‘‘ بددیا نتی کرتا ہے تودوسرے کہتے ہیں کہ کیا مُردے کا مال سمجھ رکھا ہے۔
|