|
.
(۱۸) مرزا پھویا۔
جوبچہ اپنے ماں باپ یا بڑوں کے لاڈ پیار اور ناز برداری کی وجہ سے بہت نازک مزاج اور تحریر یا نازک مزاج ہوجاتے ہیں ان کو مرزا پھویا کہتے ہیں یعنی روئی کا بہت ہی چھوٹا سا اورنازک ساپھویا ایسا پھویا جسے عطرسے بسایا جاتا ہے۔ سماجی طورپر ہمارے معاشرے میں غیرضروری نزاکت نازک مزاجی بُری بات سمجھی جاتی ہے اوراسی پرایک طنز ہے اوراس دورکی یادگار ہے جب رئیسوں کے بچہ ناز نخرے کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں۔
(۱۹) مُرمُروں کا تھیلا۔
مُرمُرے کھیلوں کی طرح چاول سے تیا رکیا ہوا ایک آئیٹم ہوتا ہے بہت ہلکا قریب قریب بے وزن اب اگرمُرمُرے ایک تھیلے میں بھرلئے جائیں تو تھیلا بہت بڑا ہوتا ہے مگر اِس میں وزن کچھ بھی نہیں ہوتا وہ آدمی جوبظاہر موٹا تازہ اوربھاری بھرکم ہوتا ہے اُسے مُرمُروں کا تھیلا کہتے ہیں۔
(۲۰) مرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔
موت کے لئے فرصت وفراغت کی کوئی شرط نہیں ہوتی مگر آدمی اپنے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرہی لیتا ہے اوربہانہ بھی ایسا جواُسی کے لئے قابلِ قبول ہوتا ہے کسی دوسرے کے لئے نہیں ایسے ہی بہانوں میں سے یہ بہانہ بھی ہے کہ مرنے کی بھی فرصت نہیں ظاہر یہ کرنا ہوتا ہے کہ میں بہت ضروری کسی کام میں لگا ہوا ہوں اوراس کو پورا کرلینا چاہتا ہوں اس وقت تواگر فرشتۂ موت آجائے تواس سے بھی معذرت کرلوں گا کہ فی الوقت مجھے فرصت نہیں ہے اِس وقت میں جینا چاہتا ہوں اپنا کام سمٹانا چاہتا ہوں مجھے مرنے کی بھی فرصت نہیں۔
(۲۱) مسجد میں اینٹ الٹ کررکھنا۔
مسلمان عورتوں کا محاورہ ہے اوراِس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد کے احترام میں یا اُس کے کام میں کوئی بھی بے توجہی یا بدیانتی نہیں برتنی چاہیے اِس لئے کہ اُس کی سز ا بہت شدید ہوتی ہے مطلب ہے کہ سماج میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے رہے جو مذہب کے کاموں میں مقدس فرائض کی انجام دہی میں دیانتدارانہ رہے اسی پر یہ تنبیہہ کی گئی یہ الگ بات ہے کہ عورتوں میں خاص طورپرجاہل عورتوں میں تواہم پرستی زیادہ ہوتی ہے اوراُسی کے رشتہ سے اس طرح کے تصورات بھی اُن میں زیادہ ہوتے ہیں۔
(۲۲) مشعل کے نیچے سے نکلا ہوا ہے۔
ایک طرح سے نیا محاورہ ہے مگربہت دلچسپ ہے جب تک گیس کے ہنڈے یا بجلی کے بلب نہیں آتے تھے اُس وقت تک زیادہ ترمشعلوں ہی سے کام لیا جاتا تھا۔ اورجُلوسوں کے موقع پر مشعل بردار ہوتے تھے جو دوسروں کو روشنی دِکھلاتے تھے لیکن خود اندھیروں میں رہتے تھے یہ بالکل وہی بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا اس کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ زمانے کے ساتھ گھوما پھراہے اوتجربہ کار ہے ۔
(۲۳) مشعل لیکر ڈھونڈھنا۔
تلاش اورتجسس سے بھی روشنی وچراغ اورمشعل کا عملی اوراشاراتی رشتہ ہے اسی لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے مشعل لیکر نکلا اقبال کا مشہور شعر ہے اوراسی عمل کی طرف اشارہ ہے۔
آئے عُشاق گئے وادائے مردا لیکر اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لیکر۔
|