|
.
آدمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رویّے develop ہوجاتے ہیں۔ اِن میں بدلاؤ بھی آتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکروکردار کا بہت نمایاں حصّہ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نمودونمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شاخِ زعفران ہونا گویا بڑی قدروقیمت رکھنے والا شخص ہے۔ محاورے ہمارے معاشرتی رویوںپر جو روشنی ڈالتے ہیںاور سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن میں یہ محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے آپ کو دُور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(۱۲) اپنا اُلّو سیدھا کرنا۔
عجیب و غریب محاورہ ہے جس میں اُلّو کے حوالہ سے بات کی گئی اور معاشرے کے ایک تکلیف دہ رویّہ کو سامنے لایا گیا یا اس پر طنز کیا گیا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آدمی وہ کوئی بھی ہو، اپنا بیگانہ، امیر غریب، دوسرے سے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے اور مطلب برآری کے لیے دوسرے سے چاپلوسی اور خوشامد کی باتیں کرتا ہے اور مقصد اپنا مطلب نکالنے سے ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک اور محاورہ بھی ہے یعنی دوسرے کو’’ الّو بنانا‘‘ یعنی بیوقوف بنانا۔
(۱۳) اَپرادھ ہرنا (ہڑنا)
’’ہڑنا‘‘ دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آتا ہے یعنی سُوجھ بُوجھ کو سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔اَپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور خطا کو کہتے ہیں۔ آدمی خداکا قصور بھی کرتا ہے، سماج کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ جُرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی یا دینی جرم کو مذہب کی اِصطلاح میں پاپ، اَپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رویہ بھی اختیار کیا اور گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کی باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک آگئی کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ہندؤوںنے بھی تیرتھ یاترا اور اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا اور آخر کار اس پر مطمئن ہوگئے۔
(۱۴) آپ سُوارتھی۔
’’سوار‘‘ ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آدمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ اُسے مطلب نکالنا بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا سوچتا ہے تو بُراہی سوچتا ہے۔اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے آتی ہے تو اُس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خودغرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا ردِعمل بھی ہے اور یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اِس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور قدیمانہ روایت کے تحت اس کے خلاف کُھلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔اور کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رویہ یہ ہے کہ صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کرلیں لیکن اپنے اوپر خود تنقیدکرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔۔
|