|
.
(۴۶) مول لیکے چھوڑدینا۔
بڑی نیت کی بات ہوتی ہے یا پھر اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم نے احسان کرکے چھوڑدیا مول لینا قیمت ادا کرنا ہوتا ہے اورقیمت ادا کرنے کے بعد آدمی اپنا حق زیادہ سمجھتا ہے اورکہتا ہے کہ یہ تومیرا مول لیا ہوا ہے یا پھر طنز کے طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ تم نے مجھے مول تھوڑے لے لیا ہے یعنی مجھ پر اتنا حق کیوں جتاتے ہو۔ جتنا زرخرید اشیاء یا غلاموں پر جتایا جاتا ہے اس سے سماجی نفسیات اورمعاشرتی رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسان سماج میں رہ کر کس کس طرح سوچتا ہے اورکس کس پرایہ میں اپنی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔
(۴۷) میدہ وشہاب۔
بہت اچھے رنگ روپ کی لڑکیوں کے لئے میدہ وشہاب جیسی رنگت کہا جاتا ہے اورکبھی کبھی رنگت کا لفظ نہیں بھی آتا اور صرف میدہ وشہاب کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کیا ہے میدہ وشہاب کی طرح ہے۔ ہمارے ہاں خوبصورتی ہو یا بدصُورتی اُس کے لئے تشبیہوں اور استعاروں سے کام لیا جاتا ہے کہ وہی تأثر کو ایک خوبصورت شکل دینے میں ہمارے کام آتے ہیں۔ میدہ ،شہاب دوصفتیں رکھتے ہیں ’’میدہ‘‘ نرم بہت ہوتا ہے اور اُس کو جب چھُوا جاتا ہے تو نرمی کا ایک عجیب احساس ہوتا ہے جو ہمارے اعصابی نظام کو بھی ایک حد تک متاثر کرتا ہے۔ اسی لئے جب ہم کسی شے کو چھُوتے ھیں تو اُس میں اسی انداز گداز‘ نرمی‘ اور دل آویزی کا احساس ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں پتھر‘ لوہا‘ لکڑی اپنا الگ احساس رکھتے ہیں۔ ’شہاب‘‘ ٹوٹنے والے ستارے کو کہتے ہیں جو نظر کے سامنے آتا ہے اور تیزی سے گذر جاتا ہے یہ چاندی جیسی چمکتی ہوئی لکیر ہمیں بے حد اچھی لگتی ہے کہ اُس میں ایک خاص جھلملاہٹ ہوتی ہے۔ یہی جھلمِلاہٹ اُس وقت بھی ہماری نظر میں ہوتی ہے جب ہم کسی سفید رنگ کی لڑکی یا لڑکے کو دیکھتے ھیں ۔ لڑکی خاص طور پر اپنی عمر، بھول پن، سادگی یا پھر شوخی یا معصومانہ شرارت کے اعتبار سے اُس کی سنہری سنہری اور صبح جیسی سفید رنگت دل کو بہت بھاتی ہے۔ اسی نسبت سے جس کی صورت وشکل اور چہرہ کی خوبصورت دھوپ کی تعریف کرنی ہوتی ہے اُس کے لئے کہتے ہیں میدہ وشہاب سا رنگ۔
٭٭٭
|