|
.
کہ پانی پر جو نقش بنتا ہے وہ ناپائید ار ہوتا ہے اُس کے مقابلہ میں نقش کلمہ حجر یعنی وہ نقش جوپتھر پرہوجوکسی کے مٹائے نہیں مٹتا اسی لئے اُردُو محاورات میں اِس محاورے کا استعمال پائیداری کے لئے ہوتا ہے کہ اس کا نام تونقش کلمہ حجر ہوگیا یہ عربی ترکیب لفظی اُردُو کی ساخت پربھی روشنی ڈالتی ہے کہ اُس میں عربی فارسی‘ ہندی سنسکرت وغیرہ بولیوں اور زبانوں کے الفاظ خلط ملط ہوگئے ہیں۔ اورانہی کی وجہ سے وہ ایک کھچڑی زبان ہے۔
(۲۴) نکلے ہوئے دانت پھرنہیں بیٹھتے۔
محاورات میں بہت سے محاورے انسان کے بدن اوربدن کے اعضاء سے متعلق ہیں اُن میں دانت بھی ہیں اُن کی تعداد کافی محاوروں کو اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔ دانتا کل کل ہونا ، ’’منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت‘‘ نہ ہونا ’’دانت کاٹی روٹی ہونا، دانت رکھنا کس طرح کے یہ محاورے ہیں جو دانتوں سے تعلق کے ساتھ زندگی کے مختلف مراحل کو پیش کرتے ہیں خاص طور پر بڑھاپے کی زندگی کے تجربات کا نچوڑہوتا ہے۔ جس میں کہیں تشبیہ کہیں استعارہ کہیں کہاوت کہیں مشاہدہ اورکہیں زندگی کا کوئی انوکھا تجربہ شامل رہتا ہے۔
(۲۵)نمک حلالی کرنا، نمک حرامی کرنا۔
نمک ہمارے یہاں بہت بڑی نعمت خیال کیا جاتا ہے اسی لئے نمک کے ساتھ وفاداریوں کا تصور وابستہ ہے اورجوکسی کانمک کھاتا ہے وہ اُس کابندہ بے دام بن جاتا ہے اوراُس کے لئے اپنا خون پسینہ بہانے پر تیا ررہتا ہے ایسے ہی کسی شخص کو نمک خوار ہونے کے علاوہ نمک حلال کہا جاتا ہے پہلے زمانہ میں لوگ اِن قدروں کوبہت مانتے تھے اورکہتے تھے کہ ہم نے آپ کا نمک کھایا ہے جولوگ اپنے آقا کے یا اپنے محسن کے وفادار نہیں ہوتے وہ نمک حرام کہلاتے ہیں ایسا ہی کوئی کردار دہلی میں تھا جس کی حویلی اب بھی ’’نمک حرام کی حویلی ‘‘کہلاتی ہے۔ الفاظ کن حالات کن خیالات‘ اورکن سوالات کے ساتھ اپنے معنی کا تعین کرتے ہیں اُن کی مثالیں نمک سے وابستہ محاوروں میں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں۔
(۲۶) نمک چھِڑکنا اورنمک کی ڈلیا ں ہونا۔
جب آنکھوں میں تکلیف ہوتی ہے اورتمام رات آنکھ نہیں لگتی نیند اُڑجاتی ہے توآنکھوں کی تکلیف کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ ساری رات میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی رہیں۔ نمک چھِڑکنا اورخاص طورسے زخموں پر نمک چھِڑکنا ذہنی تکلیف اورنفسیاتی اذیتیں پہنچاناہے اوراِس اعتبار سے یہ زندگی میں سزادینے کا بہت ہی سخت عمل ہے کہ زخموں پر نمک چھِڑکاجائے۔
(۲۷) ننگی تلوار یا شمیر برہنہ۔
تلوار میان میں رہتی ہے اورمیان سے باہر آتی ہے توخطرہ کا سبب ہوتی ہے اسی لئے بہت غصہ والے آدمی کو شمشیرِ برہنہ کہا جاتا ہے۔ویسے یہ ایک شاعرانہ انداز ہے اورہرایسی چیز کو جس میں بجلی جیسی تڑپ چمک دمک موجود ہوتوننگی تلوار سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ بہادرشاہ ظفر نے اپنی محبوبہ دلنوازکی تعریف کرتے ہوئے کہ یہ مصرعہ بھی لکھا ہے۔ شمشیربرہنہ‘ مانگ عجب اوراُس پہ چمک پھرویسی ہے
(۲۸) نِواڑاکھینا۔
ناؤ نِواڑابھی کہا جاتا ہے اور’’اُڑنے‘‘ کے ساتھ اِس کایہ تلفظ ہماری بولی ٹھولی میں ’’ اڑنے‘‘لئے استعمال کا ایک نمونہ ہے جیسے ہم پلنگ سے پلنگڑی کہتے ہیں بنگاسے ’’بنگڑی‘‘ اسی طرح ناؤ سے’’ نواڑا ‘‘چھوٹی سی’’ ناؤ ‘‘جس پر بیٹھ کر کوئی بڑی ندی دریا یا سمندرپار کیا جائے۔ ’’ جھیل ڈل‘‘ کشمیر میں اِس طرح کی کشتیاں چلتی ہیں جو نواڑ کہلاتی ہیں۔
|