|
.
(۲۹) نوتیرہ بائیس بتانا۔
حِساب کِتاب میں گڑبڑکرنااگرچہ’’ نوتیرہ بائیس‘‘ ہی ہوتے ہیں اوربھی اعداد ہیں جس سے انیس بیس محاورے یا کہاوتیں بنائی گئی ھیں جیسے انیس کا فرق ہونا یا ’’تین تیرہ بارہ باٹ‘‘ ہونا ’’باٹ‘‘ راستہ کو بھی کہتے ہیں اورحصّٰہ کو بھی ’’بارہ بانی‘‘ کا ہونا کھرا اور صحت مند ہونا۔ کھیتوں کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اورصحت مندی کے لئے بھی کھیتوں میں اچھی پیداوار اوربدن کے لئے اچھی صحت مُراد لی جاتی ہے بارہ کا لفظ اکثرتہذیبی حوالوں میں آتا ہے بارہ بُرج بھی ہوتے ہیں اورسال کے بارہ مہینے بھی اور بارہ وفات بھی۔ ’’نودوگیارہ ہونا ‘‘چلے جانے اورٹل جانے کوکہتے ہیں وہ تویہاں سے ’’نودوگیارہ ہوگئے‘‘ تیرہ تیزی ایک مہینے کا نام ہے ’’دہا‘‘ محرم کو کہتے ہیں اور’’دہے ‘‘ محرم کے گیتوں کو کہتے ہیں اِس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اعداد سے بھی ہم نے تہذیبی علامتوں کاکام لیا ہے اوراُن کو اپنی زبان کے محاوروں میں جگہ دی ہے۔
(۳۰) نوکِ پان ملاحظہ کیجئے۔
دوکاندار وں کا محاورہ ہے اورخاص طور پر جُوتے فروش کا۔ اور اِس اعتبار سے یہ ایک محاورہ ہے کہ اِس کا تعلق ’’ہاٹ بازار‘‘ سے ہے اوردوکاندارانہ اندازِ نظر اور طرزِ اظہارکا ایک بہت اچھا نمونہ ہے۔
(۳۱) نوک پلک دُرست کرنا یا نوک پلک سے دُرست ہونا۔
کسی کی شہ کی خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ نوک پلک سے دُرست ہے۔ ’’نک سِک‘‘ سے دُرست ہونا عورتوں کا اپنا محاورہ ہے اورکسی ایسی لڑکی کے لئے کہا جاتا ہے جو’’آنکھ ناک‘‘ سے دُرست ہو اورقبول صورت ہو یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بہت سے محاورے وہ ہیں جن کا تعلق گھرآنگن سے ہے اورجوہمارے گھروں کے عام ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
(۳۲) نیزوں پانی چڑھ جانا۔
یہ سیلاب کے عالم میں ہوتا ہے۔ ناپ کا پیمانہ (پیمائش) بھی آدمی کے لئے کچھ عجیب رہا ہے مثلاً گفتگو کولمبی بات چیت کہا جاتا ہے اورجب مختصرکہنا ہوتا ہے تواُسے دو بول کہتے ہیں یا بول بات کہتے ہیں زبان کو دس گز کی لمبی زبان کہتے ہیں۔ راستہ کو دو قدم کا راستہ کہتے ہیں اورجب دُور دراز راستہ ہوتا ہے تو وہ کڑے کوس کہلاتا ہے پانی کو اس کی گہرائی کے اعتبار سے ہاتھوں سے ناپا جاتا ہے اوردوہاتھ پانی کہا جاتا ہے اوپر چڑھتے ہوئے پانی کا ناپ نیزوں سے لیا جاتا ہے یعنی نیزوں آکرپانی چڑھ گیا جب کہ پانی کی تھوڑی مقدار کو چُلوبھرپانی کہتے ہیں وغیرہ اس سے ہم ناپ تول کے سادہ سطح پر انسانی اورسماجی پیمانوں کا انداز ہ کرسکتے ہیں۔
(۳۳) نیل کی سلائیاں پھیرنا۔
انسانی زندگی میں سزائیں بھی عجیب وغریب رہی ہیں اُن میں اندھا کردینا بھی ہے اُس کے لئے’’ آنکھیں نکالنا‘‘ بھی ایک عمل تھا ’’غلام قادرروہیلے‘‘ نے نوشاہِ عالم ثانی کی آنکھیں نکال لیں تھیں آنکھوں میں جلتی ہوئی سیخیں داخل کرنابھی اس کا ذکر الف لیلہ کے ایک قصہ میں آیا ہے مُغلوں میں یہ سزا کیسے آئی یہ کچھ نہیںکہا جاسکتا لیکن وہ آنکھوں میں نیل کی سلائیاں پھیر کراپنے مخالف یادشمن کو اندھا کردیتے تھے۔ محاورہ میں اُسی کی طرف اشارہ ہے میرؔتقی میر نے اپنے ایک شعرمیں بھی ایسے کسی المناک واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
شاہاں کہ کُحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
|