|
.
(۲۶)ہوش اڑنا، ہوش اڑانا، ہوش پکڑنا، ہوش میں آؤ
ہوش مندی زندگی کا ایک بہت ہی ضروری مرحلہ ہے ہوش وحواس اگرقائم نہ رہے تو آدمی اپنے لئے یا دوسروں کے لئے کچھ کرہی نہیں سکتا اسی لئے ہمارے یہاں ہوش وحواس کے دُرست رکھنے پر بہت زور دیا گیا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ میاںہوش میں رہویا ہوش میںآؤ یا ’’ہوش کے ناخن لو‘‘یعنی ہوش مندی اختیار کرو یہ بھی ایک محاورہ ہے اوربہت اہم محاورہ ہے ہوش کی دارو، دوا تولقمان کے پاس بھی نہیں تھی یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ ذرا سی دشواری پیش آئی تھی اورمصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ ہوش ٹھکانے آلگے۔’’ ہوش اڑنا، ہوش کھودینے کو کہتے ہیں یہ خبر سنکر تومیرے ہوش اڑگئے‘‘ یا میرے ہوش اڑادینے کے لئے تویہ صورتِ حال کافی تھی۔ تھوڑا سااطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا توہوش حواس کو سنبھالنے کا موقع ملا۔ اور اب جان میں جان آئی۔
(۲۷) ہول جول۔ دہلی کا خاص محاورہ ہے اوراِس سے باہر کہیں سُنا بھی نہیں گیا چرنجی لال نے اُسے اپنے ہاں بھی جگہ دی ہے ’’ہول‘‘ خوف کے معنی میں آتا ہے اورکہتے ہیں کہ یہ سنکر مجھے توہول آگیا لیکن ’’ہول جول‘‘ کے معنی اضطراب وپریشانی کے ہیں جس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ نساء وعورت کا محاورہ ہے۔محاورات ایک علاقہ سے نکل کرد وسرے علاقہ میں بھی پہنچتے اورپھیلتے ہیں اورمختلف طبقوں کے مابین اُن کا کبھی کبھی تھوڑے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ رواج ہوتا ہے لیکن ایسے محاورے بھی ہیں جوکچھ خاص تہذیبی اورطبقاتی دائروں سے وابستہ ہیں میل جول میں’’ جول‘‘ کا لفظ آتا ہے ہم جولی میں بھی لیکن’’ ہول‘‘ کے ساتھ جب یہ آتا ہے توایک دوسرے معنی دیتا ہے اورطبقہ نِسواں تک محدود ہے۔
(۲۸) ہولی کا بھڑوابنّا۔
بہت نچلے طبقہ کا محاورہ ہے اوراِس کے معنی ہیں ایک گیا گذرا آدمی جس کو اپنی عزت کا بالکل لحاظ پاس نہ ہو فارسی میں یہ ایک دشنام یاگالی کے طورپر آتا ہے اوروہاں ایسے ’’قرم ساق‘‘ کہتے ہیں۔
(۹۲) ہولی کا ہُوگیارا ہولی کا سرپٹا۔
ہولی میں عام طورسے چھوٹے طبقہ کے لوگ فِقرہ اُچھالتے ہیں رنگ اُڑاتے اور اواہی تباہی بکتے نظر آتے ہیں انہی کو ہولی ’’کا ہلیار ا‘‘ کہا جاتا ہے یعنی بہت عام سطح پر شوروغل مچانے والا ۔ ایک شخص ایسا ہوتا ہے جسے ہولی کے سانگ میں شریک رکھا جاتا ہے اورذراسی بات پر جووہ جان بوجھ کر غلط کرتا ہے اس کی پٹائی ہوتی ہے بلکہ دوسروں کی غلطیوں پربھی اُسی کو مارا پیٹا جاتا ہے یہ سب دکھاوے کے طورپر ہوتا ہے مگراِس سے سماج کا رویہ سامنے آتا ہے کہ پیشتر ہمارے گھروںاور خاندانوں میں کسی بھی شخص کو جسے معزُور اورمجبور خیال کیا جاتا ہے غلطی کوئی کرے برُا بھَلا اُسے کہا جاتا ہے۔
(۳۰)ہونٹ کاٹنا، یا چبانا، ہونٹ چاٹنا۔
آدمی کبھی بھی شدید طورپر کسی چیز کی خواہش رکھتا ہے اور وہ میسر نہیں آتی تووہ اپنا دل مسوس کررہ جاتا ہے اسی حالت کو ہونٹ کا ٹنا بھی کہتے ہیں اوربدلے ہوئے الفاظ کے ساتھ ہونٹ چبانابھی۔ اِس کے مقابلہ میں جو خو ش ذائقہ اوراچھی چیز کھانے پینے کے لئے میسر آتی ہے اگروہ حسبِ خواہش نہ ہو توآدمی اُس کی تمناکرتا رہ جاتا ہے کہ کاش وہ تھوڑی سی اورمِل جاتی۔ نہیں ملتی تووہ ہونٹ چاٹتا رہ جاتا ہے۔ یہ محاورے ہماری معاشی اورمعاشرتی صورتِ حال کی طرف اِشارہ کرتے ہیں اورایک عام آدمی پرکسی خاص محرومی کا جواثر ہوتا ہے اُسے ظاہر کرتے ہیں اورپُراثر طریقہ سے ظاہر کرتے ہیں یہ ایک طرح کا نفسیاتی معاملہ بھی ہے تجرباتی بھی اور مشاہداتی بھی اوراِس سے ایک بار پھرذہن منتقل ہوتا
|