|
.
ہم اپنی تاریخ کے صفحات سے سے گزرتے ہیں توعام طورسے سیاسی واقعات اورانتظامی اُمور ہمارے سامنے آتے ہیں یا جنگ وجدل کے حالات ہوتے ہیں مگراس سے الگ اورآگے جوہماری تہذیبی تاریخ کے نہایت اہم گوشے ہیں اُن سے صرفِ نظرکرجاتے ہیں ادبیات کا مطالعہ بعض ذہنی زمانی اورزمینی حوالوں سے ہماری تہذیب وتاریخ کے ان گوشوں اورزاویوں کو پیش کرتا ہے جوعام مطالعہ کے دوران اکثرہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اِن میں قصے کہانیاں حکایتیں نیز روایتیں بھی ہیں۔ شعروسخن میں ہماری تہذیب کے مطالعہ کے بہت سے گوشہ محفوظ ہیں مثنویاں قصیدے غزلیات اردو مرثیہ نیز مرثیے اِس دائرہ میں آتے ہیں کہ تہذیبی مطالعہ کے لئے ان کو بطورِخاص سامنے رکھا جائے ادبی مطالعہ لسانیاتی مطالعہ کی طرف بھی لاتاہے اوراس طرح کی علمی وادبی کوششیں برابرہوتی رہی ہیں۔ اگرچہ تحقیق وتنقید کے مقابلہ میں اُن کا دائرہ نسبتاً مختصراً ہے۔ یہاں ایک محاورہ کی طرف اگراشارہ کردیا جائے توبات سمجھ میں آجائے گی اوراُس کے فکری زاویہ روش اورواضح ہوجائیں گے مثلاً ’’ساس لگنا ‘‘ایک محاورہ ہے جس کا ہماری معاشرت اور تہذیبی رشتوں سے گہرا تعلق ہے ایک کنواری لڑکی اپنی کسی دوسری ہم پیشہ خاتون کے رویہ سے خفا تھی اوراُس پر اظہار ناخوشی کرنا چاہتی تھی کہ اُس نے خواہ مخواہ ایک موقع پر بُرے الفاظ میں یادکیا تھا اورشکوہِ شکایت کی بات کو لڑائی جھگڑے کی صورت دیدی تھی اُس پر اس کنواری لڑکی نے اپنی ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اُس نے میرے خلاف اِس طرح کی باتیں کیوںکیں وہ میری ’’ساس نہیں لگتی تھی‘‘۔ یہ اس لئے کہ معاشرتی طورپر ہمارے خاندانوں میں’’ ساس‘‘ کو بڑا درجہ دیا جاتا تھا اوریہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جوچاہے کہہ سکتی ہے جب چاہے ناراض ہوسکتی ہے اوراپنی بہو کا فضیتحہ کرسکتی ہے کسی اور کو یہ حق نہیں ہے۔اگرہم اس بے تکلف اظہاراورمحاورہ کی سماجیاتی اہمیت پر گفتگو کریں توہمارے معاشرہ کی ایک خاص روش سامنے آتی ہے اورگھریلو سطح پر جو حقوق کی سماجی تقسیم رہی ہے اورمختلف رشتوں کے جومعنی ہماری زندگی میں رہے ہیں اُس پر ایک عکس ریزروشنی پڑتی ہے۔ سماج متحرک نظرآتاہے وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کا عمل جاری رہتا ہے اوررہا ہے محاوروں کی زبان انداز بیان زمین زمانہ اوردہن سے اُن کا رشتہ محاورات کی لفظی ساخت سے بھی ظاہر ہوتا ہے ان کے ایسے سماجی حوالوں سے بھی جومحاورات کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں ان کو سمجھنے اوران پر غوروفکر کرنے کی ضرورت بہرحال باقی رہتی ہے۔ محاورات کو ہم کئی اعتبار سے دیکھ اورپرکھ سکتے ہیں اُن میں سے ایک رشتہ وہ ہے جولسانیات سے ہے مختلف زمانہ میں ہم اپنی زبان کی جس ساخت اورپرداخت سے زمینی یا زمانی رشتہ رہتا ہے وہ سلسلہ ادبیات لغت اورشعروشعور کے دائرہ میں پہنچ کے بدل جاتاہے اوروقت کے ساتھ بہت لفظ ہمارا ساتھ چھوڑدیتے ہیں متروکات میں داخل ہوجاتے ہیں اورایک دورکے بعدہم دوسرے دورمیں انہیں استعمال نہیں کرتے زبان وادب کے رشتہ سے جب ہم اپنی زبان کی لفظیات کو پرکھتے ہیں تویہ دیکھتے ہیں کہ گذرجانے والے وقت کے ساتھ اس کے سرمایہ الفا ظ میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں ترک واختیار کا سلسلہ ہرزمانہ کے بعد دوسرے زمانے میں واضح یا نیم واضح طورپر سامنے آتاہے یہ ضروری نہیں کہ جوالفاظ ایک طبقہ کی زبان سے خارج ہوجائیں وہ دوسرے طبقہ کی زبان سے بھی نکل جائیں یا جوایک شہرکی زبان میں اپنا چلن ختم کردیں وہ دوسرے شہر کی زبان میںبھی شامل نہ رہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مہذب شہریوں کی زبان اورلفظیات سے جو الفاظ ختم ہوجاتے ہیں وہ قصبوں اوراُن کی مختلف آبادیوں کے حلقو ںمیں شامل رہتے ہیں۔ میر انشاء اللہ خاں نے خود شہردہلی کے متعلق یہ کہا ہے کہ فلاں فلاں محلے کی زبان زیادہ صحیح اورفصیح ہے بات ایک شہر سے آگے بڑھ کردوسرے شہر تک اورشہری حدود سے تجاوز کرکے قصبات اور قصبات سے گاؤں تک پہنچتی ہے تواُس کے دَھنک جیسے حلقے بھی اپنے رنگوں کے ساتھ اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔
|