.
اعضائے جسمانی سے ہمارا جونفسیاتی اورعملی رشتہ ہے وہ سماجی حقیقتوں کا ترجمان بن جاتا ہے اوراس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے جذبات واحساسات یا اُس قدرتی ماحول سے جوہمارا وجود ہے یا ہمارے وجود کا حصہ ہے ہم اپنے خیالات اورحالات کو ظاہر کئے جانے اوراُن پر گفتگو کرنے نیز اُن سے متعلق تبصرہ کرنے میں ہم کیا اورکس طرح مددلیتے ہیں اوراِس معنی میں ہمارا اپنے وجود اورزمانہ موجود سے کیا رشتہ ہوتا ہے اورزندگی بھر بنارہتا ہے مثلا آنکھوں کے علاوہ ’’دل‘‘ سے متعلق ہمارے محاورے اورکہاوتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہماری انسانی اورسماجی نفسیات میں کس نوع کے رشتہ کیا ہیںاورکس طرح کے ہیں اورکس کس سطح کے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمارے آس پاس جو چیزیں ہیں وہ ہمارے کام میں آتی ہیں اورہمارے اپنے ماحول سے ہمارا تعلق اُن رشتوں سے بھی ظاہرہوتا ہے جو ان چیزوں میں اورہم میں ایک دوسرے سے رابطے اور وابستگی کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً’’ کانٹا‘‘ جھاڑی دار پودوں کا حصہ ہوتا ہے نرم کانٹے بھی ہوتے ہیں اورسخت بھی نیز ایسے کانٹے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی نوکیںمڑی ہوتی ہیں اورایسی بھی جولوہے کی باریک کیل کی طرح سخت ہوتے ہیں کانٹوں کے درمیان پھول ہوتے اورپھولوں کے درمیان کانٹے کانٹوں پر طرح طرح کے محاورے ہیں مثلاً’’ دل میں کھٹکنا ‘‘کانٹے کی طرح رگ جاں میں اُترجانا زہر بھرے کانٹے وغیرہ وغیرہ یہاں یہ مصرعہ یادآتا ہے ’’زیست کی راہ کا نٹوں سے بھرجائے گی ۔‘‘اِس موقع پر غالبؔ کا یہ شعر یادآرہا ہے۔
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبراگیا تھا میں جی خوش ہواہے راہ کوپرخار دیکھ کر
یا پھریہ مصرعہ ہے۔
گلوں سے خاربہترہیں جو دامن تھام لیتے ہیں
اسی طرح ٹھیکرا’’اینٹ‘‘ پتھر اور درودیوار جادہ وراہ کون سی شے ہے جوہماری زندگی کو متاثرنہیں کرتی ہمارے ذہنوں پر اثرنہیںڈالتی اورذہن جب اثرات قبول کرتا ہے توزبان الفاظ تشبیہیں استعارہ اورمحاورے سب ہی تواس سے تاثرلیتے ہیں ۔ مثلا ًآب ورنگ اگرچہ فارسی کے لفظ ہیں لیکن ہماری زندگی ہمارے ذہن اورہمارے زمانہ کی فکری اورفنی پہلوداریوں سے اُن کا گہرا واسطہ ہے اسی کو جب ہم محاورات میںمعنی درمعنی پھیلتے اورسمٹتے ہوئے دیکھتے ہیں توانداز ہوتا ہے کہ لفظ ہمارے کب کب اورکن کن موقعوں پر کام آتے ہیں اورہمارے مذہب ہماری تہذیب اورہمارے معاشرہ سے ان کا ذہنی طورپر کیا کیا رشتہ بنتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہماری تہذیبی فکر اورمعاشرتی انداز نظر بہت کچھ ہماری زبان کے طابع ہوتا ہے خیال کو جب تک الفاظ اِشارات وعلامتیں نہ ملیںتووہ حال میں نہیںبدل سکتا حال کا تعلق خیال سے ہے خیال تصورہوتا ہے اور حال اُس کی تصویر۔ ہم فنونِ لطیفہ کے ذریعہ بھی اپنی بات کہتے ہیں اس میں رقص بھی شامل ہے اور موسیقی بھی اداکاری بھی مصوّری میں رنگ کام آتے ہیں خطوط اورزاویہ ہمارے خیال کو حال میں بدلتے ہیں خیال کے خاکوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں اوراظہارِ ابلاغ کو نئی جہتیں میسر آتی ہیں نقاشی بت گری اورعمارت سازی کو بھی انہی فکری اورفنی دائروں میں رکھ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ شاعری بھی فنونِ لطیفہ ہی میں سے ہے اورایک بڑا اورہمہ گیرتخلیقی فن ہے یہ ایک Creativeآرٹ ہے ۔ اس میں بھی اظہار یا اظہاریت کو لفظ ومعنی کی اشاریت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اشاریت سے یہا ں مراد وہ کیفیت ہے کہ لفظ یا لفظی ترکیب مختصر ہوتی ہے جانی پہچانی ہوتی ہے لیکن انسانی ذہن اورتخلیقی حسےّت کے وسیلے سے اس میں نئی نئی وسعتیں گہرائیاں اوررنگارنگی پیدا ہوجاتی ہے جوہمارے جذبات واحساسات اوراِدراک کواپیل کرتی ہے معنی فہمی کی طرف لاتی ہے۔۔
|