|
.
اسی طرح عوامی سطح پر محاورہ ایک طرح کی شعوری کوشش ہوتی ہے جوپھر لاشعوری یانیم شعوری حالتوں میں بدل جاتی ہے ہمارے ایک وقت کے تجربہ کوہمہ وقتی صورت دیتی ہے اسی لئے محاورہ وقت کے بعد زمانہ بہ زمانہ اور دوربہ دور اپنی رواجی حالت کو قائم رکھتا ہے اوریہ خصوصیت ہماری اظہاری اسلوبیات میں صرف محاورہ کو حاصل ہے کہ وہ اپنی لفظیات تلفظ اورساخت کے ساتھ محفوظ رہتا ہے اورایک بڑے حسّی تجربہ کو اپنے اندر سموئے رکھتا ہے جب کہ شعر وشاعری اپنا اثر کم کر دیتی ہے اِس کے برعکس خاص طورپر محاورے کی دو جہتیں ایسی ہوتی ہیں جوہمارے ہمیشہ کام آتی ہیں ایک لسانیاتی جہت کہ محاورہ قدیم زبان کے Shadesاپنے ساتھ محفوظ رکھتا ہے اورہم محاورہ پر ایک تجسس بھری نظر ڈال کر قدیم زبان کی پرچھائیوں کو اُس میںدیکھ سکتے ہیں اورعلاقائی تغیرات کو بھی ۔ ہم اپنی زبان کی تاریخ پر اگر نظرڈالیںتوہمیںاس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ ہماری زبان نے جوایک ملی جُلی عوامی اورعمومی بھاشاہے۔ پنجاب،راجستھان، سندھ، گجرات، مالوہ، دہلی، لکھنؤ اوردوسرے علاقوں کی زبان سے اُس نے کیا اثرات قبول کئے ہیں اِس سے زبان کی تاریخ کو بھی سمجھنے میں مددملتی ہے اوراس کی روشنی میں لسانی ساخت کو سمجھا جاسکتا ہے اوراس کے پس منظر میں زبان کے ارتقاء کو بھی ۔ محاورہ زبان وبیان اورفکر وخیال کے مختلف سلسلوںسے وابستہ ہوتا ہے ان میں زبان کے ادواری اورعلاقائی رویہ بھی شامل ہیں محاورہ زبان کے کچھ خاص حصوں کو محفوظ بھی کرتا ہے اور صدیوں تک محاورہ کے ذریعہ زبان کے اس طریقہ استعمال کی حفاظت ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرموقع پر محاورہ زبان وبیان میں کوئی حسن پیدا کرے سنجیدہ ادبی زبان کو اب عام محاوروں کے استعمال سے الگ بھی رکھا جاسکتا ہے لیکن طبقاتی زبان میں وہ استعمال ہوتے ہیں۔اورہماری تہذیب کے ایک خاص رخ کو پیش کرتے ہیں محاورہ بھی ایک طرح کا استعارہ یا تشبیہہ ہے مگروہ چونکہ منجمد صورت اختیار کرلیتا ہے اس لئے نئے ذہن اورنئی فکر کی ترجمانی محاورہ سے نہیں ہوتی۔ مگروقت کا ذہن اورزندگی کا ایک طویل تجربہ بہر صورت محاورہ میں موجود رہتا ہے۔ شہر دیہات اورقصبات کی زبان میں بھی فرق ہوتا ہے اورایک ہی بڑے شہر کے مختلف طبقوں کی زبان میں بھی محاورے کے استعمال کے لحاظ سے فرق اورفاصلہ ہوتا ہے ہم محض کسی ایک علاقہ کسی ایک طبقہ یا پھرکسی ایک شہر یا بستی کی زبان کو کسی بھی بڑی زبان کے رنگارنگ دائروں کا نمائندہ مشکل ہی سے کہہ سکتے ہیں شہروں میں یہ رجحان آتا ضرور ہے اورپڑھے لکھے طبقہ کے لوگ بھی اس سے ماورانہیں قرار دےئے جاسکتے جب کہ بات بالکل صاف اورواضح ہے کہ زبان کے الگ الگ رنگ اور ڈھنگ ہوتے ہیں ان میں ہم آہنگی ہوسکتی ہے مگروہ سب ہم رنگ ہوں یہ ممکن اب سے کچھ زمانہ پہلے تک دہلی کے لوگ اپنی زبان کو سب سے اچھا کہتے تھے اورایسا ہی سمجھتے بھی تھے یہاں تک کہ اہلِ لکھنؤ کی زبان بھی اُن کے ہاںسند نہیں تھی یہی رجحان فارسی والوں میں موجود تھا کہ وہ یہ کہتے تھے فارسی ہماری مادری زبان ہے ہمیں وہ زیادہ بہتر آتی ہے خودایران کے شہر وں میں بھی شیراز اوراصفہان کی زبان کو زیادہ صحیح اورفصیح سمجھا جاتا تھا۔ دہلی والے بھی اپنے محلے کی زبان کے بارے میں اسی طرح کی دائرہ بندی کے قائل تھے میرانشاء اللہ خاںنے دریائے لطافت میں اس کا اظہارکیا ہے کہ قلعہ جامع مسجد کے آس پاس اوررسید واڑے (محلہ) کی زبان زیادہ صحیح ہے اوراسی کو زیادہ فصیح کہا جاسکتا ہے۔ باڑہ ہندوراؤ اورشہر کی بیرونی بستیوں کی زبان کو وہ محاورہ روزمرہ اورلطفِ ادا کے اعتبارسے بہت اچھا خیال نہ کرتے تھے اورمردم بیرونِ جات کی زبان ان کے نزدیک ٹکسالی زبان نہ تھی۔ یہ ایک وقت کا سماجی رویہ ہوسکتا ہے اب یہ الگ بات ہے۔ مگراس طرح کی دائرہ بندی یا معیار پسندی کوہمیشہ کے لئے زبان کی ترقی وترویج کے پیشِ نظر صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا قوموں اورطبقوں میں یہ رجحان رسم ورواج سے متعلق بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی رسموں اور رواجوں کو چاہتے ہیں پسند کرتے ہیں اورترک کرنے پر راضی نہیں ہوتے انہیں ہرتبدیلی ایک طرح کی سماجی بدعت معلوم ہوتی ہے مگر تیز رفتار بدلتی پوری زندگی میں سوچ کا یہ انداز اور دائرہ بندی کا یہ اسلوب دیر تک اوردورتک ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔ اگرچہ یہ رجحان موجودہے۔
|