|
.
اوراس سے پیشتر کم وبیش کافی شدت کے ساتھ موجود رہا ہے۔ محاورہ محاورہ بندی بامحاورہ زبان اورروز مر ہ کی پابندی کواسی نقطہ نظرسے دیکھنا چاہیے اس لئے کہ یہ تاریخ وتہذیب یا دوسرے لفظوں میں سماجیات (Socialogy)کا ایک عمل ہے اوراس عمل کا جب ہم لسانی ادبی اور معاشرتی تجزیہ کرتے ہیں توبہت سی اہم باتیں اورنکتہ ہماری نظرمیں ابھرتے ہیں اورتاریخ کے عمل کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں مثلاً اُس اُس کرنا (عش عش) کرنا بھی اس ذیل میں آسکتا ہے کہ تلفظ اوراملا کے فرق کو تسلیم کرتے ہوئے ہم محاورہ کا استعمال اورلغت وتحریر میں اس کی نگارش کو سامنے لاتے ہیں اُس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیرمعمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔ ہم اس سلسلے میں آگ سے متعلق محاورہ کو بھی پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں ۔آگ پر بہت محاورے ہیں اس لئے بھی کہ آگ انسانی زندگی میںپانی کے بعد سب سے زیادہ داخل ہے۔ آگ سے بڑی ایجاد یا دریافت شاید ابھی تک نہیں ہوئی۔ انسان کو جنگل کی زندگی کی آفتوں سے آگ ہی نے پناہ دی اس کی غذائی ضرورتوں کو ایک خاص انداز سے پورا کرنے میں آگ ہی شریک رہی آگ کو انسان نے اپنا خدا وند بھی قرار دیا اوراس کی طرف ہمارے مقدس صحیفوں میں اشارے بھی ملتے ہیں۔ آتش کدے قدیم زمانہ سے ہماری عبادت گاہیں رہے ہیں اورآج بھی ہیں مختلف مواقع پر آگ ہماری مذہبی رسومات میں شامل رہتی ہے اگردیکھا جائے توجوچیز ہماری زندگی میں فطری طورپر شریک ہے یا کسی وجہ سے ہماری معاشرت کا حصّہ بن گئی ہے ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیںاورجب وہ ہماری نفسیات کا جز بن جاتی ہے توہم اس سے متعلق محاورات کی بھی تشکیل کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ہماری زبان سے کوئی ایسا فقرہ یا کلمہ ادا ہوتا ہے جس کو ہم معاشرہ میں رواج پاتے ہوئے دیکھتے ہیں وہی محاورہ بن جاتا ہے۔ اوراس میں کچھ ایسی پہلو داری پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ سماج کے ذہنی رویہ کی نمائندگی کرتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں اس طرح سوچا اورسمجھا گیا۔ اورپھر وہ رواج عام یاسماجی فکر کاحصّہ بن گیا۔ عجیب بات ہے کہ زیادہ ترمحاورہ سماجی رویوں پر تنقید ہیں اورہم نے کبھی اس رشتہ یا زاویہ سے اُن کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی جیسے ’’الٹی گنگا‘‘ ’’پہاڑکھویا‘‘ ’’الٹی گنگا بہا‘‘ ’’الٹی مالا پھیرنا‘‘ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اصل میں ہم ایسی تنقیدیں کم کرتے ہیں جوشخصی ہوتی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک یہ کہ ہم شخصی طورپر دوسرے سے برا بننا نہیںچاہتے اور اُس کے مخالفانہ رویہ کو دعوت دینا اس لئے پسند نہیں کرتے کہ اس سے ہماری سماجی الجھنوں میں اضافہ ہوتا ہے اپنے قریب ترافراد کو برا کہنا اسی لئے avoidکرتے ہیں کہ پھر قربت میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں اوراتفاق اختلاف میں بدلتا ہے اسی لئے ہم صرف اپنے دشمنوں کو براکہتے ہیں اوربات بات میں برا کہتے ہیںکہ ہمارا مخالفانہ جذبات اِس طرح تسکین پاتے رہتے ہیں اورتاہم غیرضروری طورپر اپنی مخالفت کے دائرہ کو بھی بڑھنے سے روک دیتے ہیں مگر برا حال ہم سب ہی کوکہتے ہیں اوراس کے لئے محاورے کا سہارا لیتے ہیں اس طرح محاورہ ہماری زبان کی تیزی ہمارے لب ولہجہ کی چُبھن اورہمارے طنز یہ فقرات کی زہر ناکیوں سے بھی بچ جاتا ہے اُس معنی میں محاورہ طنز وتعریض کے موقع پر بہت کام آتا ہے ذکراوراپنے اظہارِ خو شی ذکروملال اور اپنے ذاتی غموں یا دکھوں کے اظہار وابلاغ میں بھی غیرمعمولی مدددیتا ہے اوروہ کام کرتا ہے جوشاعری کرتی ہے مگر شعروشاعری سے سب لوگ کام نہیں لے سکتے اورجوکام لیتے ہیں وہ بھی ہروقت نہیں لے سکتے ایسی صورت میں محاورہ ہمارے جذبات واحساسات اورفکروخیال کی نمائندگی اورجذبات کی ترجمانی اس طرح کرجاتا ہے کہ بات بھی کہہ دی جاتی ہے اوراس پر پردہ بھی پڑارہتا ہے۔ شہری زندگی میں زبان کے طرح طرح سے تجربہ کئے جاتے ہیں اورسطح پر اُس کے اثرات اوراِمکانات کو آزمایا جاتا ہے شہری معاشرہ میں ذہن وزندگی میں جوتہہ داریاں پیدا ہوتی ہیںپیچ وخم جنم لیتے ہیں اورطرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اورمعاملہ کرنا ہوتا ہے اس کی وجہ سے شہری زبان میں نئے نئے پرت پیدا ہوتے اور نئے نئے پہلو اُبھرتے رہتے ہیں۔
|