|
.
یعنی ہماری مطلب اس سے نہیں نکل سکتا۔ ’’گوں گیرا‘‘ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی تلاش میں رہتا ہے۔’’اپنی گوں کا یار‘‘ بہت واضح صورت ہے کہ وہ خود غرض اور مطلبی ہے۔ ’’آپ سوارتھی‘‘ کے معنی بھی یہی ہیںجس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔
(۲۳) اپنی چھا کو کون کھٹّی کہتا ہے۔
یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رویّے پر ایک طنز ہے۔’’چھا‘‘ بلوئے ہوئے دُودھ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی ’’چھا‘‘ مزے دار نہیں ہوتی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیںہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں ’’چھا‘‘ پینے کارواج عام تھا۔ کچھ لوگ ’’چھا‘‘بیچتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہماری ’’چھا‘‘ میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود میںآیا اور اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو بُرا کہنا نہیں چاہتے اور اپنی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبارسے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔اس میں شہر اور دیہات سب شریک ہیں۔
(۲۴) اپنی بات کا پچ کرنا۔
اپنی بات پر جمنا اور اُس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور بگاڑ دیتی ہیں اور وہ صورت ہوتی ہے’’عذرِ گنا ہ بد تر از گناہ‘‘۔ اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر ’’اڑنے‘‘ کے بجائے معذرت کر لو اور غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔
(۲۵) اپنے نصیبوں کو رونا۔
مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نکمّے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ وہاں بھی تقدیر کی بُرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں، جُھوٹ سچ اور غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور آپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر سبب بہرحال اُن کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔
(۲۶) اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھنا۔
ہم جن معاشرتی کمزوریوں، برائیوں اور عیبوں کا شکار ہیں، اور نہ جانے کب سے رہے
ہیں، اُن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، اُن پر تنقید کرتے ہیں، طعن و
تعریض کرتے ہیں؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے ہیں، نہ
ان کا اعتراف کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان ،اپنے عزیز اور اپنے گروہ کے لیے
بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب اُن میں بھی ہیں۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔یہیں سے
تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، دوسروں کے رویّے میں اختلاف کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور وہ یہ
کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تومنہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا
کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی انسانی خوبیاںکیا ہیں اور کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر
بھرے ہوئے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے
سماجی ماحول اور آپسی روےّوں پر ایک تبصرہ ہے۔
|