.
شہرایک بڑی آبادی کے طورپر برابر حرکت میں رہتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرنے والا ایک انگریزی محاورہ ہے اس تحرک سے جس میں تسلسل بھی ہوتا ہے Acity in the motionزبان پر جواثرات مرتب ہوتے ہیں اُسے شہری زبان اس کی لفظیات اس کے محاورے روز مرہ نیز اس کے لب ولہجہ میںدیکھا جاسکتا ہے۔شہر والے اپنی زندگی میں امتیاز کے جوزاویہ اورپہلوپیدا کرتے رہتے ہیں اُن میں وہ اپنی زبان کو بیشتر اپنی امتیازی روش وکشش کوسامنے رکھتے ہیں۔ یہ ہردوراورہرملک کی شہریت کا اپنا تہذیبی رویہ ہوتا ہے۔ جواُس کی معاشرتی فکرکی نمایندگی کرتاہے۔ ہم دہلی، لکھنؤ،لاہور، حیدرآباد، اوربعض دوسرے شہروں کی نسبت سے اپنی ادبی اورلسانی تاریخ میں اِس کا مطالعہ اورتجربہ کرتے آئے ہیں دہلی اور لاہورمیں بیٹھ کر اہل ایران اپنے امتیازات کا اظہار کرتے تھے اوردہلی والے لکھنؤاور حیدرآباد میں بیٹھ کر جب ہی توہم داغ کویہ کہتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
دلی نہیںدیکھی ہے زبان داں یہ کہاں ہیں
اور داغ ؔکایہ شعرتواس موقع پر بے اختیاریادآتا ہے۔
اُردو ہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دُھوم ہماری زباں کی ہے
محاورے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں ان کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا افرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ دار اسی طرح ہمارا ذہن منتقل نہیںہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی ، انفرادی نفی کیفیتوں کی آئینہ دار ی ہے اسی طرح ہمارے اعضاء ہاتھ پیر ناک کان اورآنکھ بھوں سے ہمارے محاورات کا گہرا رشتہ ہے مثلا آنکھ آنا آنکھیں دیکھناآنکھوںمیں سمانا اورآنکھوں میں کھٹکنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیںاورکہیں کہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔ آنکھ سے متعلق کچھ اور محاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں آنکھ اٹھانا،آنکھ اٹھانا آنکھوں کی ٹھنڈک آنکھ پھوڑٹڈا۔آنکھیں ٹیڑھی کرنا آنکھ بدل کربات کرنا۔رُخ بدلناآنکھوں میں رات کاٹناآنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا استعارات اندازبیان ہے جس کا تعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اورسماجی شعور سے بھی یہ بے حداہم اوردلچسپ باتیں ہیںآنکھ بدل کربات کرنا ناگواری ناخوشی اورغصہ کے موڈ میں بات کرنا ہے جوآدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے آنکھیں اگرتکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں اوران میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تواسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں یعنی تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرنا آنکھیں پتھر انا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتناانتظار کیا کہ آنکھیںپتھر ہوگئیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اورشام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ کرتا ہے جوگویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہرکرتاہے آنکھ لگنا سوجانا اورکسی سے محبت ہوجاناجیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یاردوستوں نے اس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پرآگیا ہے اورکسی سے اُس کی آنکھ لگی ہے اس سے ہم انداز ہ کرسکتے ہیں کہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں کو ذہنی حالتوں کوصبح وشام کی وارداتوں کو اور زندگی کے واقعات کو ہم نے مختصراً محاورہ میں سمیٹا ہے اورجب محاورہ شعرمیں بندھ گیا تووہ ہمارے شعور اورذہنی تجربوں کا ایک حصہ بن گیا۔ محاورہ جن الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے وہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا ہرطبقہ اپنے اپنے ماحول زندگی اورذہن کے مطابق الفاظ استعمال کرتا ہے سب کے پاس نہ ایک سے الفاظ ہوتے ہیں نہ ایک ساتجربہ ہوتا ہے نہ ایک سی ذہنی سطح ہوتی ہے ۔ اسی لئے محاورہ بھی اُن کی لفظیات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے مثلا ً خوشی کے محاورے الگ ہوتے ہیں غم والم کے مواقع سے نسبت رکھنے والے محاورے الگ شادی بیاہ سے تعلق والے الگ اور شادی بیاہ کے رسومات سے متعلق محاورے جُدا مثلاً ’’بیل پڑنا‘‘ جب بدّھاوے یاڈومینوں کے گانے بجانے سے
|