|
.
تعلق سے بات کی جاتی ہے تواُن کو پیسے دینے کا ذکرخاص طورپر آتا ہے اوریہ طبقہ اسے بیل پڑنا کہتا ہے اس موقع پر خاکروب عورتوں کا ناچ قصبوں میں بدھاوا کہلاتا ہے اب بدھاوے کی رسم بھی ختم ہوگئی ڈومینوں کا ادارہ بھی باقی نہ رہا توبیل پڑنے کا محاورہ اب زبانوں پر نہیں آتا اس لئے کہ محاورات کا استعمال ہماری رسموں اوررواجوں کے مطابق رہا ہے وہ رسمیں ختم ہوئیں وہ رواج باقی نہ رہے تووہ محاورے بھی ہماری زبان سے خارج ہوگئے لیکن قدیم ادب میں اورپرانے لوگوں کی زبانوں پرجب یہ آتے ہیں توہمارے سماج کی رنگارنگ تاریخ پراپنے انداز سے روشنی ڈالتے ہیں اوراِس سے اِن کی اِفادیت کاپتہ چلتا ہے مثلاً بعض محاورے ایسے کھیلوں سے متعلق ہیں جن میں چانس( اتفاق) زیادہ اہم کردارادا کرتا ہے ’’چوپڑا‘‘ ایسے ہی کھیلوں میں سے ہے اورہم بطور مثال ’’پانسہ‘‘ پھیکنے کو پیش کرسکتے ہیں ’’پاساپلٹنا ‘‘بھی اسی سلسلے سے وابستہ ایک محاورہ ہے۔ ان محاورات سے جب ہم گذرتے ہیں تومعاشرہ کا وہ ذہنی رویہ بھی سامنے آتا ہے جوتقدیری اموریا ہماری قسمت پر ستی سے وابستہ ہے۔ ہمارا معاشرہ تقدیرپرست ہے اس لئے ہربات کو قسمت سے وابستہ کرتا ہے یہاں تک کہ ’’پانسہ پلٹنا ‘‘بھی قسمت ہی سے وابستہ ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ جنگ کاپانسہ پلٹ گیا یعنی ہار فتح میں اور فتح شکست میں بدل گئی۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محاوروں میں کیا کچھ کہا گیا ہے اورکس کس صورت حال کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے محاورہ کا رشتہ تہذیب وسماج سے ہوتا ہے صرف لغت سے نہیں ہوتا ۔ ہمارے زیادہ ترکام معاملات اورمعمولات سماجی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اورہماری انسانی کمزوریاں بھی انسان کے سماجی وجودسے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کہ اگروہ محض انسانی خوبیاں یا کمزوریاں ہوتیں تووہ سب میں مشترک ہونی چاہیں تھیں اگرکچھ لوگ مختلف ہیں اورکچھ قومیں مختلف ہیں تویہ سوچنا پڑتا ہے اُس کی وجہ تاریخ ہے تہذیب ہے پیشے یاپھر عام سماجی رویہ ہیں ان کوپیداکرنے اورقبول کرنے میں بھی سماج شریک رہتا ہے اگرہم کسی کے شکر گذار نہیں ہوتے صرف شکوہ سنج ہوتے ہیں تودیکھنے اورسوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا تعلق سماج سے ہے یاپھر ایک فرد سے اگربہت سے لوگ ایک ہی عادت ایک ہی جیسا مزاج اوررویہ رکھتے ہیں توپھر اُس کا تعلق فرد سے نہیں ہے معاشرہ سے ہے اسے کسی انسان کے لئے ذاتی یا انفرادی نہیں کہا جاسکتا۔ اعضائے جسمانی میں بہت سے عضوایسے ہیں جومحاورات میں شامل ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کویا انسانی وجود کے مختلف حصوں کواپنی سوچ میں شامل کررکھا ہے اوران کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اورتجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گر بھی ہے زبان بھی ہاتھ پیر بھی ہیں اورتن پیٹ بھی ہے۔ یہاں اس امرکی وضاحت کردی جائے تونامناسب نہ ہوگا کہ محاورہ سادہ الفاظ میں ضرورہوتاہے لیکن اس کے معنی لغت یا قواعد کے تابع نہیں ہوتے وہ ایک طرح کے استعارہ یا کنایہ ہوتا ہے اوربولنے والا اُسے ایک خاص معنی اورمفہوم کے ساتھ استعمال کرتا ہے عام لفظی معنی اُس کے نہیں ہوتے۔ زبان میں محاورے کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس میں کوئی ندرت یا جدّت نظرنہیںآتی لیکن محاورہ بنتا ہی اُس وقت ہے جب اُس میں استعاراتی یا علامتی اظہار شامل ہوجاتا ہے استعارہ دراصل زبان کا وجہ استعمال ہی نہیں اُسے عام رویوں عمومی لفظیات اورانداز سے قریب ترکرتا ہے اوراستعمال ہی کی وجہ سے طبقہ درطبقہ اورشہر بہ شہر اوربعض صورتوں میں محلہ درمحلہ کچھ امتیازات کے پہلواُبھرتے ہیں اور استعمال ہی سے دائرہ بند زبان عوام کے درمیان پہنچتی ہے اوراپنے استعمال میں ایک انفرادیت اور اجتماعیت پیدا کرتی ہے۔ محاورہ کسی ایک کانہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے اورسب کے لئے ہوتا ہے اورسب کی طرف سے ہوتا ہے اوراس کی یہ عمومیت ہی زبان ادب اورلسانیت میں ایک اہم کردار ادار کرتی ہے۔ اورسب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا پہلویہ ہے کہ یہ زبان میں تسلسل کی روایت کوقائم رکھنے میں ایک مسلسل اورخاموش کردار یہ ہے کہ ایک دورکے بعد دوسرے دورمیں اورایک دائرہ فکر ونظر کے بعد دوسرے دائرہ میں محاورہ کام کرتا ہے
|