|
.
لغت کا بھی حصہ بنتا ہے ادب وشعر کا بھی اورتہذیب وروایت کا بھی۔ محاورہ کی تہذیبی تاریخی اورمعاشرتی اہمیت پر جو گفتگو کی گئی ہے وہ ہراعتبار سے ضروری نہیں کہ کافی وشافی ہو اس میں اوربہت سے پہلو بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلا لسانی پہلوجس کی طرف راقمہ نے بھی اشارہ کیا ہے یا تاریخی پہلو کہ وہ بھی راقمہ کی نظر میں رہے ہیں لیکن یہ خوفِطوالت ان پر کوئی تفصیلی گفتگوممکن نہیں ہوئی اس کے علاوہ محاورات کا طبقاتی مطالعہ بھی ہوسکتا ہے راقمہ نے بھی موقع بہ موقع اِس کی طرف اشارے کئے ہیں۔ زبان ومحاورات کی علاقائی تقسیم بھی ایک دائرہ وفکر وخیال بن سکتی ہے کہ کون کون محاورات کس علاقہ سے بطورِ خاص تعلق رکھتے ہیں۔ اوریہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ شہری، قصباتی اوردیہاتی سطح پر محاورات اپنے اپنے دائرہ میں کیا رنگ اور آہنگ رکھتے ہیں اوران کی لسانی اورتہذیبی اہمیت کیا ہے۔ محاورات کی ایک عمومی حیثیت ضرورہے لیکن ہماری زبان ہماری شاعری اور ادب نگاری کی طرح محاورے کے مطالعہ کی بھی ایک سے زیادہ جہتیں ہوسکتی ہیں بات کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور جہت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ ہماری زبان اُس کی لفظیات اُس کے پس منظر میں موجود کلچرکی ایک اساسی حیثیت ہے۔جس نے زبان کی فکر ی نہج کو بھی متاثر کیا اسُ کی لفظیات کواور ادبیات کوکبھی اِس طرح کے حلقے ہماری زبان اس کی لسانی ساخت تہذیبی پس منظر اورمحاوراتی سلیقہ اظہار پر بھی زمانہ بہ زمانہ اورحلقہ درحلقہ دوررس اوردیر پا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان میں پہلا عرب ایرانی حلقہ تہذیب ولسانیات ہے جس کا اثرہم اپنی زبان پر دیر تک اوردُورتک دیکھتے ہیں۔ سندھ گجرات اورمالا بار کا علاقہ وہ علاقہ ہے جس سے عرب وعجم کا رشتہ بہت قدیم ہے عجم ہم عام طورپر ایران کوکہتے ہیں لیکن اس میں عراق بھی شامل ہے اس علاقہ سے مغربی ہندوستان اور جنوب مغربی ایشیاء کا جو تعلق ہے وہ بہت قدیم ہے جن کا اثریہاں کی زبان یہاں کے شعروشعور اورتہذیبی اندازِ نظر پربھی مرتب ہوا ہے اِن علاقوں کی زبانوں میں جو عربی فارسی اور اردو کے الفاظ ملتے ہیں ان میں محاورے بھی شامل ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان محاوروں کا اس لسانیاتی تاریخی اور پس منظر سے کیا رشتہ ہے علاوہ بریں ترکوںمنگولین اورترک وتاتاری علاقہ سے بھی ہمارا ہزاروں برس پرانہ رشتہ ہے آریہ سینٹرل ایشاء ہی سے آئے تھے اوران کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا قدیم آریاؤں کے بعد اس علاقہ میں بسنے والی قومیں اورقبیلے وسطی عہدمیںبھی اپنے اپنے علاقوں سے اِس پر ہندوستان آئے اوریہاں آباد ہوگئے۔ ہم یہ کیسے فراموش کرسکتے ہیں کہ وسطی عہد کے بہت سے حکمران خاندانوں کا نسلی رشتہ مرکزی ایشیاء سے وابستہ رہا ہے اس علاقہ میں ترکوں منگولین یا ترک وتاتاری زبانیں بولی جاتی ہیں یہی بولیاں یا زبانیں آنیوالوں کے ساتھ شمال ہندوستان کے علاقوں میں آکر آباد ہوئیں تواپنی زبانوں سے ایک لمبے عرصہ تک اِن کا رشتہ باقی رہا اوراس کا اثر ہماری علاقائی بولیوں پر بھی مرتب ہوا۔ہمارے کچھ محاورے ایسے بھی ہیں جواس علاقہ کی دین ہیں یا پھر اُس کے اثرات سے متاثرضرورہیں۔ ہم یہ بھی فراموش نہیں کرسکتے کہ ہماری ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کا مرکزی ایشیاء سے وابستگی رکھنا ہے اوراِن کہانیوں کے جغرافیائی ماحول میں بھی یہ علاقہ اوران کے جغرافیائی اورتاریخی آثار شریک ہیں ایسی صورت میں محاورہ کا کم ازکم علاقائی محاورہ پران کے اثرات کامرتب ہونا ایک فطری عمل ہے اس پر مزید کام کرنے اوربات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہماری زبان اوراس سے وابستہ بولیوں کا سرچشمہ اور اس سے پھوٹنے والی مختلف شاخیں یا فروغ پذیر ہونیوالی بولیاں علاقائی زبانوں کو متاثربھی کرتی رہتی ہیں اوران سے تاثربھی لیتی رہی ہیںپنجابی یا لاہوری زبان بھی اس میں شامل ہے۔ راجستھانی بھی اِس سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے میواتی کھڑی بولی اوردہلی میںبولی جانے اوررواج پانے والی بولیوں کو بھی اس سے الگ نہیں کیا جاسکتا اوربرج کے علاقہ کی برج بھاشاکی بولی کوبھی یہ تووہ بولیاں ہیںجن سے شمال مغربی ہندوستان میں اردو بنی اورصدیوں تک متاثرہوتی رہی۔
|