|
.
اس میں فارسی کوبھی ایک اہم سرکاری درباری انتظامی اورثقافتی حییثت سے شامل رکھئے۔ اُردوکی پرورش وپرداخت دکنی زبان کی حیثیت سے صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہوتی رہی یہاں کی اپنی بولیاں دراوڑنسل کی زبانیں تھیں جن میں ہم مہاراشٹری یا مراٹھی کوبھی صرف نظر نہیں کرسکتے ۔ان بولیوںکا اثردکنی اُردونے قبول کیا۔ اور دکنی اُردوکے محاورے اورلفظیات پرجواثرات دکنی بولیوں کے تھے اس کا اثرشمالی ہند کی بولیوں میں بھی آگیا اس میں تجارت پیشہ لوگوں کے آنے جانے کو بھی دخل تھا۔ اورفوجوں کے بھی تاریخ اپنے طورپر جس طرح کام کررہی تھی اس کا عمل جوہماری تہذیبی زندگی کو متاثرکرتا رہا اسی اعتبار سے زبانیں بھی اس کا تاثرقبول کرتی رہیں۔ ادیبوں شاعروں اورصوفیوں کے ہاں ہم اس تاثر کو زیادہ آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ خانقاہوں کا اثر غیرمعمولی ہے جوشمال وجنوب میں یکساں طورپر دیکھا جاسکتا ہے لیکن جس زمانہ میں دکنی زبان میں قدیم اردو لٹریچرکے نمونے سامنے آرہے تھے اس دورمیں شمالی ہندوستان میں اُردو شاعری کی مثالیں نہیں ملتیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دہلی کے آس پاس جوزبانیں بولی جارہی ہیں اُن میں شاعری اچھے خاصے پیمانہ پرہورہی ہے۔ ان زبانوں میں پنجابی اورراجستھانی زبان کے علاوہ برج اور اودھی شامل ہے ان زبانوں یا بولیوں کا شعری ادب مسلمان قوموں کا اپنا تخلیقی ادب بھی ۔ اوربڑے پیمانے پرہے۔ اِن کے مطالعہ سے ہم بہت کچھ لے سکتے ہیں اورنتائج اخذ کرسکتے ہیں کہ ان کے وسیلے سے ایک طرح اورایک سطح پر زبان آگے بڑھتی رہی ہے اورنئی نمود حاصل کررہی ہے۔ محاورہ اُس دورزندگی کی بہرحال لسانی یادگار ہے اوران کے ادبی لسانی اور تہذیبی اثرا ت محاورے میں بھی سمیٹے ہوئے ہیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Presevedصورت میںہیں ان بولیوں سے تقابلی مطالعہ کا وسیلہ اختیارکرکے ہم اُردو محاورات کامزید تہذیبی اورلسانی نقطہ نظرسے کام کرسکتے ہیں۔ ضرورت اِس امرکی ہے کہ ہمارے اہلِ نظر اوراصحابِ خیرافراداس طرف توجہ فرماہوں جس سے اِس نوع کے مطالعہ کی اہمیت سامنے آئے اوراس کے مختلف گوشے جواب تک نظرداری کی روشنی سے محروم ہیں اُن کی طرف توجہ مبذول ہو۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمارے نئے لکھنے والے اورسینئرادیب اس مسئلہ کی طرف خاطر خواہ توجہ دے کر بات کو آگے بڑھائیں گے اورمطالعہ کی نئی صورتیں سامنے آئیں گی اورآتی رہیںگی۔
٭٭٭
|