|
.
(۲۷) اپنی اپنی پڑنا۔
آدمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور آپسی معاملات کے تلخ تجر بے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ گرد آلود کر دیتے ہیں۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کرلیتے ہیں اور بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا اِن کے کام آنا ،اُن کے مسائل سے دل چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔ آدمی صرف اپنی خواہشوںکو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی طرف دیکھتا ہے؛ اس وقت سماج میں ایک آپا دھاپی شروع ہوجاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔
(۲۸) اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہونا۔
آدمی اپنے ہوش و حواس اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اُٹھانے اور آئندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں، اگر اُن کے قریب ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہوجاتا ہے اور وہ نتیجہ سامنے نہیں آتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں ’’آٹا ماٹی ہونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۲۹) اٹھکھیلیاں کرنا۔
آٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں۔ مثلاً، آٹھواساں، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مدتِ حمل پورا ہونے سے پہلے آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔’’آٹھوںگانٹھ کمینت‘‘ ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و توانا ہو۔ اسی طرح آٹھ پہر دن اور رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہوجاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی ’’آٹھ کھیل‘‘ جو باتوں سے متعلق ہوں۔ اس کو ہم جنسی اور جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔ اِس سے ملتا جلتا ایک محاورہ ’’بارہ سولہ سنگھار‘‘ یعنی بارہ لباس اور سولہ سنگھار۔ اَبرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے ہیں اور سنگھار آرائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں۔
( ۳۰) اُجلی یا اُجلی سمجھ۔ اُجلی طبیعت۔
اُس میں کچھ محاورے ایسے ہیں جو خاص دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور دہلی کی عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً، ’’اُجلی‘‘ کی بات وہ دھوبن کے لیے کہتے ہیں۔ اُس کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت یا رات کو عورتیں دھوبن کہنابُرا سمجھتی ہیں۔ اسی لیے دھوبن کو ’’اُجلی‘‘ کہہ کر یاد کرتی ہیں۔ یہ دہلی کے خاص الفاظ یا عورتوں کے استعارہ میں شامل ہے اور اس اعتبار سے دہلی کی تہذیبی زندگی کا ایک خاص محاورہ ہے۔
’’اُجلی سمجھ‘‘ اور ’’اُجلی طبیعت‘‘ دہلی کی عورتوں میں خاص طرح کی سُوجھ بُوجھ اور
عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرے یا اُجالے کا تعلق صرف صبح
و شام یا دن رات کی قدرتی کیفیات سے نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور
نا سمجھی سے بھی ہے۔ اور یہیں سے انسان کا فطرت اور تہذیب سے ذہنی رشتہ سمجھ میں
آتا ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ ’’اُجلی گزران‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خوش حال
اور خوش باش زندگی۔
|