|
.
’’اُجلا منھ ہونا‘‘ بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں عزت و آبرو سے زندگی گزارنا۔ اس کے مقابلے میں ’’منھ کالا کرنا‘‘ بے عزتی کے کام کرنا ہوتا ہے۔
(۳۱) اچھانِکا۔
مغربی یو۔پی۔ میں اچھی زندگی کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’نِکا‘‘ در اصل ’’نِکو‘‘ ہے جو فارسی میںنیک کے معنی میں آتا ہے اور مُراد وہی اچھائی یا بھلائی ہوتی ہے۔ محاورے میں الفاظ لغوی معنی میں نہیں آتے۔ اُن کے کچھ مُرادی معنی ہوتے ہیں جو اصل معنی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ استعارہ اور تشبیہہ کے عمل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایسے معنی مراد ہوتے ہیں جو تصویر سے تصور کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کا تعلق انسان کے ذہن و فکر ، فن اور طریقۂ رسائی سے ہوتا ہے جو تہذیب کی دین بھی ہیں اور اُس کی علامتیں بھی۔
(۳۲) اُچاپت اُٹھانا۔
یہ بھی دہلی کا خاص محاورہ ہے لیکن ہمارے تہذیبی اور معاشرتی نظام کے ایک خاص عملی حصہ کو ظاہرکرتا ہے۔ کسان، مزدُور، ملازمت پیشہ نوکر چاکر سبھی بنیے کی دکان سے سودا سلف لیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ اُس کی قیمت بھی ادا کریں۔ یہ قیمت کبھی فصل آنے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، کبھی چھ ماہی کی صورت میں جو زیادہ تر فصل آنے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ جب تنخواہ ملتی ہے یا مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ دیا جاتا ہے تو پھر وہ اس رقم میں سے بنیے کو جاکر دیتا ہے جس سے اُچاپت اٹھائی گئی ہے۔ تعلق اُس کا اُدھار لینے سے ہی ہے لیکن ایک خاص سِسٹم کے ساتھ یہی بات آگے بڑھ کر دیوانی اور ساہوکاری میں بدلی ہے۔
(۳۳) آدھا تیتر آدھا بٹیر۔
جب کردار میں یا کسی شے کی ظاہری شکل و صورت میں توازن و تناسب نہیں ہوتا اور اُس کی غیر موزونیت پہلی نظر میں بھانپ لی جاتی ہے تو اُسے آدھا تیتر آدھا بٹیر کہتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں شوقین طبع لوگ تیتر پالتے تھے۔ بٹیروں کے پالنے کا بھی رواج تھا اور لکھنؤ میں بٹیروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی۔ اِس کا رواج دہلی میں بھی تھا۔ یہ رئیسوں کا شوق تھا اور رفتہ رفتہ درمیانی طبقے میں بھی سرائیت کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹیر پالنا اور تیتر پالنا معاشرے میں کچھ خاص رجحانات کا ترجمان بن گیا۔ اُن میں موزونیت اور ہم آہنگی بطورِخاص شامل ہے جس کی طرف یہ محاورہ بطورِخاص اشارہ کرتا ہے۔
(۳۴) آدمیوں کا بَن یا جنگل۔
جنگل آدمی کے لیے ایک اہم تہذیبی حوالہ ہے۔دیہات والے اپنی بہت سی ضرورتیں جنگل سے پوری کرتے ہیں۔ لکڑیاں لانا ہو، پھل کھانا ہو، مکان کی کوئی ضرورت ہو، کڑیاں ہوں، ’’برگے‘‘ ہوں، شہتیر ہوں یا چھپّر ہو، اُسارہ ہو، جس کے سہارے چھپّر کھڑا کیا جاتا ہے یا پھونس جس سے چھپر بنایا جاتا ہے۔ سب کا تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سے انسانی تہذیب کا گہرا رشتہ ہے۔ رفتہ رفتہ شہر آباد ہو گئے۔ گاؤں اور ضلعے بس گئے تو آدمی کا اور جنگل کا ساتھ چُھوٹ گیا۔ آدمی نے جنگل کاٹ بھی دیے اور اپنے شہری تصوّرات کے تحت غیر مہذب آبادی کو جنگلی کہنا شروع کر دیا۔ بن میں رہنے والے انسان ان کے نزدیک آدمی نہیں، بن مانس تھے۔ زیادہ شہریت آئی تو گاؤں والوں کو گنوار کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شہر میں اگر گھنی آبادی ہوگئی ، بہت بڑھ گئی تو اسے آدمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور اُس کے مقابلے میں جہاں آبادی نہ ہوئی یا بہت کم ہوئی اُسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔
اُن محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تواندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا آدمی کی زندگی سے
کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح کا بھُوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔۔
|