|
.
میر انیسؔ کا مصرعہ ہے: صحرا کا آدمی ہے کہ جنگل کا جانور جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی آتا رہاہے اور صحرا کو تصورِعشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور استعاروں میں شامل کیاگیا ہے۔ فراقؔ کا مصرعہ ہے: صحرا صحرا دل بھٹکے گا آج تمہیں نے روکا ہوتا
(۳۵) آدمیت پکڑنا۔
انسان آدم زاد ہے اور اُردو ادب میں اُسے آدم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں آدمی سے قصور اور خطا وابستہ ہے، وہاں آدمیت، شرافت اور انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں۔انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور جانور کہا جاتاہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور بھلے آدمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی بن ، آدمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی اُس کے آدم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔
(۳۶) آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر۔
رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ پُر اسرار، پُر کشش، لایقِ توجہ اور ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا ذکر خوابوں کے ساتھ خوفناکیوںکے طور پر بھی کیا جاتا ہے، جیسے ڈراؤنی رات، اندھیری رات، اندھیرا گھُپ۔ اندھیروں کا سفر زندگی کا تکلیف دہ اور ڈراؤنا سفر ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کا سفر جب ہاتھ کو ہاتھ بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ رات تاروں بھری بھی ہوتی ہے ، چاند رات بھی ہوتی ہے اور چاندنی رات بھی۔ اسی کے ساتھ ’’چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے‘‘، یہ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض کہ رات سے ہمارے بہت سے تصورات وابستہ ہیں۔ ’’آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر‘‘ نصف شب کو کہتے ہیں جب سونے کا وقت آجاتا ہے۔ پچھلا پہر بھی رات ہی سے منسوب ہے۔ انسان دو برابر کے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کو بڑی بات خیال کرتا ہے۔ چاند کے حِساب سے راتیں دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں تو وہ چودھویں رات کہلاتی ہے اور اس کے چاند کو چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔ہمارے ہاں داستانوں اور کہانیوں کا تصور بھی راتوں سے وابستہ ہے۔ ’’الف لیلیٰ‘‘ کانام ہی ’’الف لیلا و لیلا‘‘ ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔اردو کی مشہور معشوقہ لیلیٰ بھی رات ہی سے وابستہ ہے۔
(۳۷) آدھوں اُودھ کرنا۔
آدھا ایک کا نصف ہے اور تہذیبی طور پر اپنے خاص معنی رکھتا ہے۔ مذکورہ محاورے میں بھی آدھے کا تصوّر واضح طور پر موجود ہے۔اَدّھی، اَدَھنّا، اَدھ پکا، اَدھ رانا، اَدھ بانکا، اَدھ مرا، اَدھ موا، ادھ کچرا، ادھ بُنا ، اُن سب میں’’آدھ‘‘ شامل ہے اور ایک خاص ذہنی پیمانے کو پیش کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی سوچ ہمارے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہے اور ہمارا ذہن زبان پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو الفاظ کے محاوراتی معنی، استعاراتی معنی ہوتے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے’’آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے، آدھی رہے نہ ساری پاوے‘‘۔ یعنی آدمی جب زیادہ لالچ کرتا ہے تو نہ آدھی ملتی ہے، نہ ساری؛ محرومی ہی اِس کے حصے میں آتی ہے۔ یہ بھی سماج کے رویہ پر تبصرہ ہے کہ صبر وضبط سے کام لو، زیادہ لالچ اور خود غرضی اختیار نہ کرو۔
|