|
.
اُن میں ’اُڑنا‘ اور’ اُڑادینا‘ بھی ہے۔’ اُڑتی چڑیا کو پہچاننا‘، یا’ اُڑتی چڑیا کے پر گننا ‘بھی اور’ اُڑن چھُو ہونا‘ (غائب ہوجانا، بھاگ جانا) یا ’اُڑن کھٹولا ہونا‘ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ۔’اُڑن کھٹولا‘ ہوئی جہاز کو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں ’اُڑان جھَلّا‘ یعنی اڑتے ہوئے کبوتروں کی ٹولی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کبوتر بازوں کا محاورہ ہے۔’ قسم ہے اُڑان جھلے کی‘۔ ’اڑن سانپ‘ یعنی ایسا سانپ جو اڑ سکتا ہو۔ ’اڑتی بیماری ‘ بھی ایک محاورہ ہے، ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھجلی بھی انہیں میں ہے، دق بھی اور کھانسی بخار کی بعض صورتیں اس میں شامل ہیں۔ معاشرتی طور پر ایسی برائی جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور سب ہی کم و بیش اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس کو اڑتی بیماری کہتے ہیں۔
(۴۴) اَڑنا ،رکاوٹ بننا۔
اپنی جگہ پر اس طرح ٹھہر جانا کہ پھر ٹس سے مس نہ ہو۔ اقبالؔ کا شعر ہے ۔ آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اُڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ’’طرز کہن پہ اڑنا‘‘ وہی پرانی روایت پر قائم رہنا ہے، بلکہ اس پر اصرار کرنا ہے۔ معاشرے میں یہ روش ایک خاص کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معقول سطح پر ایک بات کا جائزہ نہ لیا جائے اور یہ تجزیہ نہ کیا جائے کہ اس میں کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت اس میں ہے بھی یا نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی فکر و نظر اور احساس و ادراک کی نا رسائیوں کا باعث بننے والی ایک معاشرتی کمزوری ہے۔جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
(۴۵) اَڑنگ بَڑنگ۔
اصل میں جو چیزیں، جو خیالات سماج کو بے تکے پن کی طرف لاتی ہیں، وہی اڑنگ بڑنگ کہلاتی ہیں، یعنی بے تکی، بے ڈھنگی، بے ہنگم۔ یہ عوامی الفاظ ہیں۔ اُن کا استعمال اب زبان میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن عمومی سطح پر اب بھی ہم انہیں محاورات میںاستعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔’اڑنگا لگانا‘ ایسا ہی ایک محاورہ ہے جس سے دوسرے کے کام میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بننے کا رویہ سامنے آتا ہے، جو ایک طرح کا بُرا اوربُرے نتیجے پیدا کرنے والا سماجی رویہ ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس نے خواہ مخواہ’ اڑنگا لگادیا‘ رکاوٹ پیدا کردی، الجھنیں کھڑی کردیں۔ اس سے ہم اپنے سماجیاتی مطالعہ کے بعض پہلؤوں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں جو کام، جو شے یا جو تعمیر بے ڈھنگی ہوتی ہے، اُس کے بے ہنگم پن پر تبصرہ بھی اَڑنگ بڑنگ کہہ کر کیا جاتا ہے۔
(۴۶) اُڑی اُڑی طاق پر بیٹھی۔
ویسے تو ایک چڑیا کا اُڑنا اور اِدھر سے اُدھر بیٹھنا اِس میں شامل ہے، لیکن
محاورے کے سماجی استعمال اور معاشرتی رویوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھ
میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کون کون سے عملی اور ذہنی رویّے اس میں شامل ہیں۔
اُڑنا انسان کو ہمیشہ ہی اچھا لگا اور خودوہ طرح طرح سے اُڑنے کی کوشش کرتا رہا
۔اسی لیے اُڑنے کے عمل پر بہت سے محاورے موجود ہیں۔ محاوروں کا رشتہ ہمارے جذبات
سے، خواہشات سے اور تمنّاؤں سے طرح طرح سے جُڑا ہواہے۔ اِس میں ہمارے خواب بھی
آجاتے ہیں، خیال بھی اور تمنائیں بھی۔کوئی محاورہ کسی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک
طرف اس میں اُس کی ناکامیاں آتی ہیں، دوسری طرف کامیابیاں اور تیسری طرف تمنائیں
اور ضرورتیں، مجبوریاں۔ ایک محاورہ ہے’اَڑی بھِیڑی میں کام آنا‘، یعنی جب کوئی صورت
نہ ہو اور ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوں، اس وقت کوئی کام آجائے تو کتنی بڑی بات
ہوتی ہے۔اسی لیے ایک کہاوت ہے، ’بیوی بھلی پاس کی، یار دوست بھلا ٹوٹے کا‘۔جب کوئی
کام نہ آتا ہو تو آدمی کتنا مجبور ہوتا ہے۔ اسی لیے اَڑی بھیڑ میں کام آنا یا اَڑے
وقت میں کام آنا ہماری سماجیات کا اہم پہلو ہے کہ جب آدمی خود کچھ نہ کر سکے تو
کوئی دوسرا کام آئے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے
|