|
.
کہ جو مصیبت میں کام آجائے وہی اپنا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جا تا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک محاورہ ’اڑے کام سنوارنا ‘ بھی ہے۔
(۴۷) آڑے ہاتھوں لینا۔
عجیب بات ہے کہ محاورات ہماری تہذیب کے مختلف رُوپ پیش کرتے ہیں اور اُن سے ہمارے ذہن و زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ ’آڑے ہاتھوں لینا‘ فضیحتا کرنے کو کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ سیدھے ہاتھ کے معنی ہوتے ہیں محبت کا اظہار کہ پیار سیدھے ہاتھوں ہی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ’آڑے ہاتھوں لینا‘ گفتگو کا عمل بھی ہے اور تعلقات کے اچھے بُرے ہونے کی ایک نشانی بھی ہے۔ ترچھی نظروں سے دیکھنا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسانی عمل کی ادائیگی میں الفاظ بھی حصہ لیتے ہیں۔ اعضاء کا ایکشن اور ری ایکشن(reaction) بھی اشارے ا ور کنایے بھی، خیال ، عمل، خوشی اور ناخوشی بھی۔ محاورے انہیں سب حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔اب یہ الگ بات ہے کہ محاورہ بھی تشبیہ ہوتا ہے، استعارہ بھی، تصوّر بھی اور تصویر بھی۔ ’آڑے آنا‘ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اِس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے لیے آفت میں کام آنے کی غرض سے آڑے آنا کام آتا ہے اور ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور ان کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ آڑے آ گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور کتنی پریشانیاں برداشت کرنی ہوتیں۔’اڑم ڈھم ہونا‘ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ مگر اس کے معنی بھیڑ بھڑکّا کے ہیں۔ جب راستہ نہ ملے اور نہ بیٹھنے کی جگہ ہو، نہ جانے کے کوئی راہ ، ایسے وقت میں اَڑم ڈَھم کہتے ہیں۔ محاورہ عوامی طرزِاظہار بھی ہوتا ہے اور بعض محاوروں میں صوتی اعتبار سے ایک کرختگی بھی ہوتی ہے جو عوامی اظہار میں شامل رہنے والی ایک صورتِ اظہار ہے۔ خواص سخت الفاظ اور کرخت آوازوں کا استعمال کم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زبان میں یہ رجحان پوربی بھاشاؤں سے آیا ہو۔ اُردو کے ابتدائی مراحل میںان بھاشاؤں کا اثر ہماری زبان پر زیادہ تھا اور بعد میںفارسی اثرات کی بدولت یہ رجحان شہری سطح پر کچھ اور آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔مگر عوامی محاورے نے ان آوازوں کو جو نسبتاً ثقیل آوازیں تھیں، ہماری زبان میں باقی رکھا ہے۔
(۴۸) آزاد کا سونٹا (فقیر)۔
فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری ، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا، نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا ضرور ہے۔ اقبالؔ کا یہ مشہورشعر انہیں آزاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دِلّی ، نہ صفاہاں، نہ سمرقند فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی آزادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، بلّی کتّے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میںہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کوجو اپنے لب و لہجے پر قابو نہیں رکھتا، ’آزاد کا سونٹا‘ یا ’ فقیر کا سونٹا‘ کہتے ہیں۔
(۴۹) اِزار بند ی کا رشتہ یا اِزار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ۔
اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے
جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔ اِزار پائجامہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے ایسے رشتے جو
جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کو اِزار سے نسبت دی جاتی ہے اور سماجی طور پر
انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ ’اِزار کا کچّا‘،
’اِزار کا ڈھِیلا‘ یا ’اِزار کی ڈھیلی‘، اسی نسبت سے مرد اور عورت کے لیے کہتے
ہیں۔اب یہ محاورے عام نہیں ہیں۔۔
|