|
.
’آسرا ڈھونڈنا‘، ’آسرا جوہنا‘، ’آسرالگانا‘، ’’آسراباندھنا‘ بھی اور ’’آسرا رکھنا‘ بھی۔ فراقؔ کا شعر ہے ۔ آسرا وہ بھی شامِ فُرقت کا خواب تو دیکھیے محبت کا
(۵۲) آسامی بنانا۔
’آسامی‘ جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک پٹواری ، ایک ٹیچر یا ایک کلرک کی آسامی خالی ہے۔ ’آسامی بنانا‘ ایک محاورہ بھی ہے اور انسان کے فریب، مکر اور دغا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آدمی جھوٹ سچ بول کر، پُر فریب باتیں کر کے کسی سے ناجائز فائدہ اٹھالیتا ہے۔ اسی کا آسامی بنانا کہتے ہیں کہ ُاس نے وہاں آسامی بنا رکھی ہے، یا وہ تگڑم باز ہے، آسامی بنا لے گا۔ آسامی بمعنی جگہ اب بہت کم استعمال ہوتا ہے اور درخواستوں میں بھی نہیں آتا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض الفاظ سماج میں ایک خاص طبقے یا حلقے میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور جڑیں پھیلاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ سمٹ بھی جاتے ہیں اور ان کا استعمال کم یا ختم ہوجاتا ہے۔
(۵۳) آستین کا سانپ ہونا۔
یہ بھی سماج میں موجود افراد کی برائیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سانپ خود بھی بطورِ محاورہ اور علامت استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی نہیں بلکہ سانپ ہے۔ اس معنی میں سانپ گویا بدترین دشمن ہوتا ہے اور آستین کا سانپ وہ ہوتا ہے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہو، ہمارا ہم درد ہو اور مخلص نظر آتا ہو لیکن در پردہ ہمارا دشمن ہو۔ سماج میں اس طرح کے کردار بہر حال موجود ہوتے ہیں۔
(۵۴) آستینوں میں بُت چھُپائے رکھنا۔
یہ محاورہ ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے جب انسان عقیدہ و خیال کو چُھپائے رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور ظاہر کچھ اور کہا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ جو دراصل بُت پرست تھے، جب نماز پڑھنے مسجد میں آتے تو اپنی آستینوں میں بت چھپائے رکھتے اوراس طرح ایک منافقانہ کردار ادا کرتے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبالؔ نے یہ شعر کہا ہے ۔ اگر چہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الااللّٰہ
(۵۵) اِس کان سننا، اُس کان اڑادینا۔
معاشرے کا لا پروائی والا رویّہ اُس کے پس منظر میں موجود ہے کہ وہ کسی کی اچھی سچی بات اور فریاد بھی سننا نہیں چاہتا۔ ویسے داستانیں، قصّے، کہانیاں گھڑی بھی جاتی ہیں، سنی بھی جاتی ہیں اور سنائی بھی جاتی ہیں۔ لیکن معاملے کی باتیں نہ کوئی سننا چاہتا ہے، نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ رویّہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اور روزمرہ کے تجربے کا حصہ ہے کہ آدمی دوسرے کی بات کو سُنی ان سنی کردیتا ہے۔ اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کان سے سنتے ہیں اور اس کان سے اڑادیتے ہیں۔
(۵۶) آسمان پر اُڑنا ۔ آکاس پھل۔
یہ ایسا محاورہ ہے جو ہماری زبان اور ہماری روایتی فکر کی سماجی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی بہت اونچی اونچی باتیں کرنا، بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا، جس کو زمین آسمان کے قُلابے مِلانا بھی کہتے ہیں۔ آسمان ہماری ایک اہم تہذیبی علامت ہے۔ ہم اپنے مذاہب کو بھی آسمانی مذہبوں سے تعبیرکرتے ہیں۔ آسمانی کتابیںکہتے ہیں، آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں۔ سنسکرت میں اسے’ آکاش وانی‘ کہا جاتا ہے۔
|