|
.
مسلم اقوام میں آسمان کا ایک اور کردار بھی ہے کہ وہ فریب کارہے، دغا باز ہے، فتنے بر پا کرتا ہے، دِلوں میں فرق ڈالتا ہے اور عاشقوں کا دشمن ہے، رقیبوں کا دوست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے فارسی اور اردو شعراء کے ہاں آسما ن کی شکایتیں ملتی ہیں اور اس طرح کی تمنائیں بھی کی جاتی ہیں ۔ شبِ وِصال بہت کم ہے، آسماں سے کہو کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جُدائی کا اسی لیے ایک نیا زاویۂ فکر پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ آدمی اگر زیادہ مکّاریاں کرتا ہے تو وہ گویا آسمان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بہت سے محاورے آئے ہیں جن سے ان ذہنی رویّوں کا پتہ چلتا ہے جو آسمان سے متعلق ہیں، جیسے آسمان کے تارے توڑنا، آسمان سے باتیں کرنا، آسمان میں پیوند لگانا، آسمان پر دماغ ہونا، آسمان پر چڑھنا، آسمان کو ہلادینا، آسمان جھانکنا یا تاکنا۔ اِس سب میں زیادہ چالاکی دکھانے، جھوٹ بولنے اور فریب دینے کا مفہوم شامل رہتا ہے۔اِس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانی مشکلات سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی زندگی پر جو آفتیں ٹوٹتی ہیں، اُن کی طرف اُن میںاشارہ مقصود ہوتا ہے، جیسے آسمان پھٹ پڑنا، آسمان ٹوٹ پڑنا، آسمان سے بلاؤں کا اُترنا۔ فارسی کا ایک شعر ہے ۔ ہر بلائے کز‘ آسمان آید خانۂ انوریؔ تلاش کُند یعنی جو بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے، وہ انوریؔکا گھر تلاش کر لیتی ہے۔ یہ ہر وہ آدمی کہہ سکتا ہے۔ جس کے گھر پر زیادہ آفتیں آتی ہیں۔ آسمان سے متعلق اور بھی محاورات ہیں، جیسے آسمان سے گِرا، کھجور میں اٹکا، یعنی ایک جگہ سے کوئی مسئلہ حل بھی ہوا تو دوسری جگہ جاکر اٹک گیا۔ ایسا ہمارے انتظامی معاملات ، گھریلو مسائل اور دفتری سطح کی باتوں میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ محاورہ ہمارے معاشرے کی صورتِ حال کو سمجھنے اور محاورے کے ذریعے معاشرتی امور پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر از غیبی گولے کا ذکر آیا ہے۔ ’آسمانی گولا‘، ’آسمانی تھپیڑا‘ بھی اسی کو کہتے ہیں۔ آسمان کے متعلق اور بھی کچھ محاورے ہماری زبان کا حصہ ہیں۔ اُن میں’ آسمان تلے آنا‘ بھی ہے۔
(۵۷) آسن۔ بیٹھنے کے انداز کو کہتے ہیں۔ جوگی دھیان، گیان کے وقت ایک خاص انداز سے بیٹھتے ہیں۔ اس کو’ آسن لگانا‘ کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی جگہ پر نہ رہے تو اسے ’آسن ڈگنا‘ کہتے ہیں۔ ’آسن مارنا‘ یا ’آسن مارکر بیٹھنا‘ آسن لگانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔ جنسیات میں ایک خاص طریقے سے ایک دوسرے کے قریب آنے کو بھی آسن لگانا کہا جاتا ہے۔’آسن تلے آجانا‘ بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(۵۸) اَش اَش کرنا (عش عش کرنا)۔
یہ محاورہ ’ع‘ سے عش عش کرنے کی صورت بھی آتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایسی زبان سے ماخوذ ہے جس میں ’ع‘ کا استعمال ہوتا ہو۔ اسی لیے لغت میں اس کے ساتھ چھوٹی ’ہ‘، ’ف‘ اور ’ع‘ کی علامتیں لکھی ہوئی ہیں، یعنی یہ ہندی، فارسی اور عربی تینوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ہم اپنی زبان کے لِسانی رشتوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔محاورہ زبان کی قدامت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔
(۵۹) اِشتعال دینا یا اِشتعالک پیدا کرنا۔
غصّہ دلانے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن لفظِ اشتعال عربی ہے اور اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ
یہ محاورہ ہم نے عربی سے اخذ کیا ہے۔ ہمارے سماجی عمل میں بھی یہ استعارہ شریک ہے۔
جان جان کر بھی ہم دوسروں کو Teaseکرتے ہیں اور ان کو غصہ دلاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے
کہ محاورہ صرف لغت کی شے ہی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سماجی لسانیات سے ہے اور زبان کو
ایک خاص سطح پر پیش کرنے اور سامنے لانے میں محاورہ جگہ جگہ اور معنی بہ معنی ایک
خاص کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔۔
|